مغرب ہوش کے ناخن لے

352

منیب حسین
یورپ ایک بار پھر دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ اْن دہشت گردوں کے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ یورپ کے اپنے تیار کردہ ہیں، کیوں کہ ان دہشت گردوں میں سے کچھ تو مغربی خفیہ ایجنسیوں کے آلہ کار ہیں، جب کہ اکثر مسلمانوں کے معاملات میں مغربی مداخلت اور انسدادِ دہشت گردی کے نام پر اسلامی ممالک میں یورپی غنڈاگردی کے ردعمل میں اس راہ پر چل پڑے ہیں۔ انتقامی جذبات نے انہیں دین و شریعت کی تعلیمات سے دور کردیا ہے، لیکن اکثر کو پھر بھی مذہب اور جہاد کے نام پر ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔
جنوب مغربی یورپ کا ملک اسپین گزشتہ روز سے دہشت گردانہ حملوں کی لپیٹ میں ہے۔ ان حملوں میں 18 ممالک کے شہریوں سمیت 13 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ ساتھ ہی مقامی پولیس نے 5 مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک اور ایک سے زائد دہشت گردی کے منصوبے ناکام بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ اسپین کی جنوبی ریاست کاتولونیا کے مشہور شہر بارسلونا اور کیمبرلز میں راہ گیروں پر گاڑیاں چڑھائی گئی ہیں، جب کہ الکنار نامی قصبے میں ایک مکان دھماکے سے اڑ گیا ہے۔ کیمبرلز میں پولیس اور عسکریت پسندوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا ہے۔ اسپین میں ہنگامی صورت حال ہے، جب کہ یورپ بھر میں خوف کی فضا ہے۔



ان حملوں کی ذمے داری حسب معمول شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔ تنظیم نے اسپین کے نہتے عوام کو کچلنے کی اس کارروائی کو ’عسکری مہم‘ قرار دیا ہے۔ جب کہ ہسپانوی وزیراعظم، یورپی رہنماؤں اور مغربی ذرائع ابلاغ نے حسب سابق اسے ’جہادیوں‘ کا حملہ قرار دیا ہے۔ حالاں کہ اس قسم کے حملوں کا اسلام اور جہاد سے کوئی تعلق نہیں، لیکن ان کی عادت ہے کہ یہ لوگ افغانستان کیمزاحمتی گروہ طالبان، شام کی اسلام پسند مسلح تنظیموں اور فلسطینی تحریک مزاحمت حماس کو کبھی جہادی نہیں لکھتے، کیوں کہ ان گروہوں کے افعال سے اسلام اور جہاد کے خلاف پرپیگنڈا کرنے کے مواقع کم ہی ہاتھ آتے ہیں۔ اس لیے مغربی ذرائع ابلاغ صدام حسین کی بعث پارٹی کے عناصر کے ہاتھوں میں کھیلنے والی دہشت گرد تنظیم داعش کو اہتمام کے ساتھ ’دولت اسلامیہ‘اور اس کے عناصر کو ’جہادی‘ لکھتا ہے۔



اسپین میں عوام پر کیے گئے ان حملوں اور 13 ہلاکتوں کی کوئی بھی مذہب یا معاشرہ حمایت نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر سے ہر سطح پر ان حملوں کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ رواں ہفتے 3 روز کے دوران امریکا، نیٹو اور ان کی اتحادی افواج نے شام کے مشرقی شہر رقہ میں داعش کے نام پر عوامی مقامات اور رہایشی علاقوں کو فاسفورس بموں سمیت کئی آتش گیر مادوں اور مہلک ہتھیاروں سے نشانہ بنایا ہے۔ ان حملوں میں شامی مبصر برائے انسانی حقوق کے مطابق 21 بچوں سمیت 59 نہتے شہری شہید ہوئے ہیں۔ ان مرنے والوں میں کئی مہاجر خاندان بھی ہیں، جو مکمل طور پر مٹ گئے ہیں۔ تاہم عالمی برادری خوش ہے کہ رقہ کو داعش سے آزاد کرانے کی مہم کامیابی سے جاری ہے، لیکن انہیں اندازہ نہیں کہ یہ قتل عام دنیا بھر کے امن کو مسلسل خطرے میں ڈال رہا ہے۔



امریکا، نیٹو اور ان کے اتحادیوں کی انہیں ’انسان کش کامیابیوں‘ کا نتیجہ ہے کہ آج یورپ اور امریکا سمیت پوری دنیا غیرمحفوظ ہوگئی ہے۔ شام اور عراق میں جب آتش و آہن کی بارش شہروں کے شہر برباد کرتی ہے اور امریکا کی آنکھ کا تارا اسرائیل فلسطینیوں کے مکان مسمار کرتا ہے، تو مسلمانوں میں ایک نسل تیار ہو جاتی ہے، جو دینی جذبے سے سرشار ہو کر اپنے بھائیوں کا انتقام لینے کے لیے بے چین نظر آتی ہے۔ مسلمانوں کی کوئی مخلص قیادت نہ ہونے کے باعث ان نوجوانوں کو داعش جیسی انتہاپسند تنظیمیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں، بلکہ بعض اوقات یہ نوجوان مغرب کے مفادات کی تکمیل میں بھی کام آتے ہیں۔ اکثر حملوں کے بعد مغربی خفیہ ادارے کہتے ہیں کہ حملہ آور ایک عرصے سے ان کی نگرانی میں تھا، تاہم کوئی سوال نہیں کرتا کہ یہ نگرانی اسے گرفتار کرنے کے لیے تھی یا حملے کا موقع دینے کے لیے۔
دوسری جانب یورپ کو اس وقت غیرقانونی مہاجرت کا سامنا ہے، جس کے باعث وہاں اسلام فوبیا کی وبا پھیلتی جا رہی ہے۔ ابھرتی ہوئی سیاسی جماعتیں عوامی رجحانات کو دیکھ کر اپنے انتخابی نعرے تیار کر رہی ہیں۔ جس روز بارسلونا میں حملہ کیا گیا، اسی روز آسٹریلیا کی پارلیمان میں برقع پر پابندی زیرغور آئی اور اس اجلاس میں ایک خاتون سینیٹر پالین ہینسن مذاق اڑانے کے لیے افغان طرز کا برقع پہن کر شریک ہوئیں۔ جب کہ بار سلونا حملے کے تھوڑی ہی دیر بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹس میں مسلمان انتہا پسندی کا رونا رویا اور بنیاد پرستوں کی نسل کشی کی دعوت دی۔



شاید صدر ٹرمپ بھول گئے کہ ان کی اسی قسم کی جذباتی باتوں سے گزشتہ ہفتے امریکی ریاست ورجینیا کے شہر شارلٹس ول میں سفید فام نسل پرستوں اور ٹرمپ کے مخالفین میں تصادم بھی بارسلونا حملے کی طرح کے ایک کار حملے پر منتج ہوا تھا، جس کے نتیجے میں ایک خاتون ہلاک اور 20 زخمی ہوگئے تھے۔ تاہم اس وقت امریکی صدر نے نہ ہی سفید فام نسل پرستوں کی نسل کشی کی بات کی اور نہ ہی اس نسلی منافرت کی تمام تر ذمے داری سفید فاموں پر ڈالی۔ شاید صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ کونسل آف امیریکن اسلامک ریلیشنز کی وہ رپورٹ نہیں بھی پڑھی، جس میں کہا گیا ہے کہ رواں سال کی پہلی ششماہی میں گزشتہ برس کے مقابلے میں مسلمانوں کے خلاف جرائم اور ان پر حملوں میں 90 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی منافرت کو داعش جیسی تنظیمیں مغرب پر حملوں کا جواز بنا کر پیش کر رہی ہیں۔



اسی طرح مشرقی یورپ میں ایک بار پھر سامیت مخالف تحریک زوروں پر ہے، تاہم اس بار اس کا ہدف یہود نہیں مسلمان ہیں۔ داعش کی کارروائیوں اور ان سامیت مخالفین کی مہم کے باعث یورپ میں مسلمانوں کو کئی طرح کے خطرات کا سامنا ہے۔ تاہم فلپائن میں منڈاناؤ سے افریقی ملک مالی تک مسلمانوں پر گولہ بارود برسانے والے مغربی ممالک کو مسلمانوں کے خلاف یورپ میں کسی ممکنہ ہولوکاسٹ کی فکر کیوں ہوگی! شاید مغرب کو ابھی بارسلونا، نیس، پیرس، لندن، برلن اور اسٹاک ہوم جیسے مزید حملوں کا انتظار ہے، جن کی آڑ میں اسلامی ممالک کے معاملات میں مداخلت اور یورپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافے کے مواقع فراہم ہوں گے، لیکن شاید مغرب کو اندازہ نہیں کہ اس گھناؤنے کھیل کا انجام دنیا کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔