پروفیسر حمیدہ جیلانی
آخری حصہ
خواتین کی اکثریت کبھی گھر سے نکلی ہی نہیں تھی ۔ ان کے پاس ہوٹل کے وائوچر کی صرف ایک کاپی تھی ۔ اور ہوٹل سے کم از کم تین بار وائوچر مانگا گیا ۔ کچھ بوڑھی خواتین خوفزدہ ہو کر رونے لگتیں ۔
ایک ضعیف خاتون کو یاسر نے 30 جون سے 7 جولائی تک تین بار دھمکیاں دیں کہ ہوٹل سے چلی جائیں آپ کو مسجد جن کے پاس فلاں ہوٹل میں جانا ہے ۔ جبکہ وائوچر میں11جون سے 8 جولائی تک سارات المکۃ1لکھا ہے ۔ جس کے لیے حرم کا فاصلہ ساوات سے آدھے گھنٹے کا ہو وہ مسجد جن سے کس طرح پیدل آ سکتی ہے ۔ یہ وہ سلو ک جو اس نے اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کے ساتھ کیا ۔
مدینہ النبی کے ہوٹلوں میں بھی کچھ بہتر صورت حال نہیں تھی ۔ خندق درہ ساتر Carrat sater کے استقبالیہ کے حامد( پاکستانی) اس کا کہنا تھا کہ نامحرم مرد عورت ایک بیڈ روم میں سوئیں یہ اس کے مطابق Sharing کا مطلب ہے ۔ جب کہ مولوی عبدالحق کی لغت میں Share کا مطلب لکھا ہے ’’ بانٹنا، تقسیم کرنا، حصہ دار ہونا ، شریک ہونا شریک کرنا‘‘۔ جو مطلب حامد نے بتایا اور عمل کروایا وہ کسی لغت میں نظر نہیں آیا ۔ پچھلے سال 37ھ تک Sharing اجنبی خواتین کے ساتھ ایک بیڈ روم میں تھی ۔ مسلمانوں کا ملک ، حدود ِ حرم کچھ تو خواتین کا خیال رکھنا چاہیے ۔ کراچی کی ایک خاتون نے بتایا کہ مدینہ کے ہوٹل والوں نے کہا کہ جگہ نہیں ہے ۔ جبکہ ان کے پاس اس تاریخ میں وہ ہوٹل لکھا تھا انہوں نے ’’ شرطے‘‘( پولیس) کو اطلاع کر دی ۔ شرطے نے نہ صرف دس دن کا کرایہ واپس دلوایا بلکہ اس ہوٹل کو بھی بند(سیل) کر دیا ۔ کراچی کے ان لوگوں کو بہترین جگہ بھی دی اور اس کا کرایہ بھی نہیں لیا اور مجرموں کو پکڑ کر لے گئے ۔
یہ تمام بے قاعدگیاں ، وائوچر میں لکھا ہونے کے باوجود جگہ نہ دینا ، فندق سارات المکہ1 جیسی غلاظت، چوہوں،کھٹملوں اور جراثیم سے بھر پور ماحول ، ضعیف خواتین جو زندگی میں پہلی بار اللہ کے گھر آئی ہیں ان سے بد سلوکی اور بد اخلاقی سے پیش آنا ، صفائی نصف ایمان پر عمل نہ کرنا ۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ مرنے والوں سے حیا کرتی تھیں، اس ہوٹل میں بلکہ بہت سے ہوٹلوں میں تھکی ہوئی خواتین جو حرم سے آتی تھیں ان کو مردوں کے بیڈ روم میں سونے پر مجبور کرنا ، اس پر حکومت پاکستان اور سعودی وزارت حج و عمرہ کو پابندی لگانا ہو گی ۔ خاص طور پر ’’ بورڈ برائے امر بالمعروف و النہی عن المنکر مسجد حرام شعبہ برائے ہدیہ و رہنمائی‘‘( علمی کمیٹی )
یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے، اس لیے کہ ہوٹلوں کی ادائیگی کم و بیش ایک ماہ پہلے کی جاچکی ہوتی ہے۔ اگر سعودی وزارت حج نصف ادائیگی کی پابندی لگادے باقی نصف حاجی دوران قیام ادا کرے اور ہوٹل کی انتظامیہ کو بھی پابند کرے کہ نا محرم مر دنا محرم خواتین کے ساتھ شیئر نہ کریں۔
خواتین الگ کمروں میں اور مرد حضرات علیحدہ کمروں میں رہیں۔ شیرنگ کا مطلب جیسا کہ درۃ ساتر استقبالیہ کے حامد نے بتایا نا محرم مرد اور عورتیں ایک بیڈ روم میں رہیں اس کے خیالات کی طرح اس کے ہوٹل کا ماحول بھی غلیظ تھا۔ یہ تمام غلاظتیں خیالات کی اور ماحولیات کی صرف اسی وجہ سے ہورہی ہیں کہ ہوٹلوں کی تقریباً ایک مہینے پہلے ادائیگی کی جاچکی ہوتی ہے۔ اس لیے ہوٹل کے کرتا دھرتا کو نہ سہولت کا خیال ہے نہ نظامت (پاکیزگی، صفائی) کا۔ پاکیزگی نہ ہی وہ ہوٹل میں جگہ دینے کے لیے اپنے آپ کو پابند سمجھتے ہیں۔ وزارت حج و عمرہ ہوٹلوں کو پابند کرے وائوچر میں جتنے دنوں کے لیے ان کا ہوٹل لکھا ہے وہ حاجیوں کو قیام کرنے دیں۔ یہ سب عجیب و غریب دھاندلیاں اسی سال رمضان 1438ھ مکہ اور مدینہ کے ہوٹلوں میں دیکھنے اور سننے کو ملیں۔ یہ دھاندلی صرف ان ہوٹلوں میں ہورہی ہے جنہیں پاکستانیوں نے ٹھیکے پر لیا ہے جب ہوٹل مسارات الملکتہ 1 کے استقبالیہ پر سات جولائی 2017ء کو کھٹملوں کی شکایت کی تو کہا گیا ’’ہمارا ٹھیکہ ختم ہ وگیا ہے‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب یہ کھٹمل حاجیوں کا استقبال کریںگے۔ کیونکہ حج پروازیں 25 جولائی 2017ء سے شروع ہوچکی ہیں۔
مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ وہ تمام ہوٹل جو مقامی عرب یا ان کے OWNERS مالک چلارہے ہیں ان میں نا محرم مرد اور خواتین ایک کمرے میں نہیں رکھے گئے۔ چونکہ ٹھیکے پر لینے والے کو مالک کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے اس لیے وہ ایک اکیلی عورت کو پانچ مردوں کے بیڈ روم میں بھیج دینا ہے کہ چھ کی گنتی کس طرح پوری ہوجائے۔ ظاہر ہے خواتین نا محرموں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہیں۔ وہ عورتوں کے اکلوتے کمرے میں زمین پر غلیظ قالین پر سو جاتی ہیں یا حرم سے واپس ہی نہیں آتیں۔ ان کی جگہ جو مردانے کمرے میں خالی ہوجاتی ہے اس جگہ کو مزید لوگوں کو کرائے پر دے دیتے ہیں۔ پھر عورتوں کے کمرے میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ بورڈ برائے امر بالمعروف والنہی عن المنکر ہوٹل عملے کی اخلاقی تربیت کرے تاکہ وہ حاجیوں سے ہاتھا پائی اور عمرہ اور حج کے لیے آنے والی ضعیف العمر خواتین سے بد زبانی اور بد اخلاقی سے نہ پیش آئیں۔ وہ تمام ہوٹل جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں پاکستانیوں کو ٹھیکے پر دیے گئے ہیں ان کی نگرانی کی جائے۔ فندق میں رہائش پذیر خواتین سے معلوم کیا جائے کہ کسی طرح کی کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔ عید کا چاند 29 تاریخ کو تھا لاہور کی کوکب کا کہنا ہے کہ عید کی رات یعنی 25 جون 2017 اعتکاف کے بعد جب ہوٹل پہنچے تو کمرہ دینے سے انکار کردیا گیا۔ وہ واپس مسجد نبوی گئے لیکن دروازے بند ہوچکے تھے فجر کی نمازا اور عید کی نماز کے لیے صفائی ہورہی تھی۔ وہ چوبیس گھنٹے دونوں میاں بیوی نے بہت مشکل سے گزارے مکہ مکرمہ میں بھی جب سارات الملکتہ 1 کے کمرہ نمبر 107 میں کوکب پروین جب اپنے شوہر کے ساتھ تھیں تو تین لمبے تڑنگے مرد بھیج دیے گئے۔ یہ عجیب و غریب صورتحال اسی سال دیکھنے کو ملی۔ پچھنے پندرہ بیس سالوں میں حج و عمرہ کے لیے آتے جاتے ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جب پیسہ دین ایمان بن جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ کیا سارات الملکتہ 1 کے یاسر (پاکستانی) اور رمضان (پاکستانی) یہ پسند کریں گے کہ ان امّاں، بہنیں یا بیویاں پانچ مردوں کے ساتھ ایک بیڈ روم میں سوئیں کیونکہ عبادات میں تھکنے کے بعد ہوٹل صرف سونے کے لیے ہی آتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’جو تم اپنے لیے پسند کرو وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرو‘‘ پاکستان کے وہ ادارے (ٹریولنگ ایجنسیز) جو حج، عمرہ اور زیارات پر بھیجنے کا کام کرتے ہیں ان کو چاہیے کہ وائوچر پر صرف ’’شیئرنگ‘‘ نہ لکھیں بلکہ وضاحت سے FEMALE SHARING لکھیں۔ یعنی صرف خواتین ایک کمرے میں رہیں۔ فندق والوں سے بات کرکے تاکید کی جائے۔ ایک ہی خاندان کے افراد الگ کمرے میں رہنا چاہیں تو رہ سکتے ہیں۔
سعودی عرب اور پاکستان کی وزارت حج اور عمرہ کو اس حج پر اور عمرہ پر اور ہمیشہ کے لیے اس کی روک تھام کرنا ہوگی ورنہ کوئی ’’بھیانک حادثہ‘‘ کسی وقت بھی پیش آسکتا ہے۔ حادثوں کا انتظار کیوں؟اتنی بڑی غیر ذمہ داری جس کو کوئی پوچھنے والا نہیں نہ یہاں نہ وہاں۔
ہائی ٹیک یونیورسٹی کی پروفیسر نعیمہ جنجوعہ نے حرمین شریفین کی انتظامیہ سے ایک گزارش کی ہے کہ ’’کعبتہ اللہ میں طواف کے حصے میں جیمر لگا دیے جائیں، تصویریں، سیلفیاں اور مووی بنانے والے طواف کے چکر میں خلل ڈالتے ہیں، حطیم کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں‘‘ کچھ سالوں پہلے موبائل بھی لیکر رکھ لیتے تھے واپسی پر دے دیتے تھے۔ یہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
پروفیسر نعیمہ جنجوعہ کی خواہش ہے کہ جس طرح مسجد نبوی میں روضتہ رسول ﷺ پرجانے کے لیے خواتین کے اوقات مقرر ہیں اسی طرح حجراسود کے بوسے کے لیے بھی خواتین کے اوقات مقرر کیے جائیں۔ پروفیسر نعیمہ کو بھی کئی بار حج و عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی ہے لیکن ایک بار بھی حجر اسود کو بوسہ نہیں دے سکی ہیں۔ مکے اور مدینہ میں جتنے ہوٹلوں میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے ان میں مسارات مملکہ 1 کبری سفلہ کے سامنے ایک گھٹیا ترین ہوٹل ہے۔ غیر صحت مند ماحول، چھ افراد کے کمرے میں 24 انسانوں کے استعمال میں غسلخانہ بلکہ خواتین سے ملنے کے لیے بے دھڑک آنے والے مردوں کے استعمال میں بھی، عملہ بد مزاج، ہوٹل میں خواتین سے زیادہ مرد حضرات کسمپرسی کا شکار تھے۔ راہ گزر میں سوتے اور کھاتے، سامان ادھر ادھر کمروں میں رکھوادیتے یہ سب اس لیے کہ ہوٹل کی ادائیگی ایک ماہ قبل کردی جاتی ہے۔ اگر سعودی وزارت حج آدھی رقم کی ادائیگی کے احکامات جاری کردے تو یہ سب نہیں ہوگا۔ آدھی ادائیگی بعد میں حاجی خود کرے۔ اگر جگہ نہیں ہے تو باہر لکھ دیا جائے کہ ’’کمرہ خالی نہیں ہے‘‘ اکثر ہوٹلوں میں یہ لکھا دیکھا ہے۔ بہاولنگر کی سمیرا یاسمین نے بتایا کہ ان کے ہوٹل میں اجنبی مرد اور خواتین ایک کمرے میں نہیں ہوتے۔ کراچی کی ایک خاتون نے بتایا کہ ان کے ہوٹل میں خواتین اور مرد حضرات الگ الگ رہتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے یہاں نا محرم مرد عورت ساتھ ساتھ ایک کمرے میں کیسے رکھیںگے (ہم نے تو غیر اسلامی ممالک میں بھی یہ تماشہ نہیں دیکھا ہے) بہاولپور کی نصرت نے بتایا کہ ان کے ہوٹل میں مردوں کو الگ اور خواتین کو الگ رکھا گیا ہے۔ سب کے لیے یہ بات حیرت کا باعث تھی کہ حدود حرم میں مکس گیدرنگ، مکس شیرنگ۔ ایک سرسری جائزے سے یہ اندازہ ہوا کہ وہ تمام ہ وٹل جو پاکستانیوں کو ٹھیکے پر دیے جاتے ہیں۔ انہیں کم سے کم مدت میں زیادہ سے زیادہ کمانے کی دھن سوار ہوتی ہے۔ اس لیے ٹھیکیدار اللہ کے مہمانوںکے ساتھ بد سلوکی اور بد اخلاقی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔وجہ کچھ بھی ہو اس کی روک تھام ضروری ہے۔ اس لیے ٹریولنگ ایجنسیوں کو چاہیے کہ اس طرح ٹھیکے پر چلنے والے ہوٹلوں میں یا جن کے استقبالیہ پر بد اخلاق پاکستانی ہوں وہاں حاجیوں کو ہر گز نہ بھیجیں،مقامی افراد یا عربوں کے زیر انتظام چلنے والے ہوٹلوں میںاس طرح کا کوئی سلسلہ نہیں ہوتا۔ عمرہ اور حج شدید جسمانی عبادات کا سفر ہے۔ اس لیے فندق (ہوٹل) میں آنے کے بعد حاجی آرام کرنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر ضعیف خواتین بہت تھکی ہوئی ہوتی ہیں اور کمرے میں آتے ہی نہانا اور سونا جانا چاہتی ہیں لیکن نا محرم مردوں کی وجہ سے ایسا نا ممکن ہوتا ہے۔
ہوٹلوں میں فوٹو اسٹیٹ مشین بھی ہونا چاہیے، پاسپورٹ اور وائوچر کی کاپیاں بنانے کا کام وہ خود کریں۔ اس طرح بحث تکرار کا ایک راستہ بند ہوجائے گا موسم حج یا رمضان کے عمرہ بلکہ آج کل تو ہر مہینے کے عمرہ پر بہت زیادہ زائرین آجاتے ہیں کم از کم ایک ہزار تو ضرور ہوتے ہیں ہوٹل میں ایک حاجی سے تین کاپیاں وائوچر اور تین کاپیاں پاسپورٹ کی ضرور مانگتے ہیں جو حاجیوں کے پاس نہیں ہوتیں۔ ہمارے دور افتادہ علاقوں سے زندگی میں پہلی بار آئے ہوئے لوگ جنہیں صرف ایک کاپی وائوچر اور ایک پاسپورٹ کی کاپی دی گئی ہے۔ مزید کاپیاں کس طرح بنواسکتے ہیں۔ بظاہر بات چھوٹی سی ہے لیکن فساد اس پر بھی ہوتے دیکھا ہے۔ اب کیا کہیں بات تو سچ ہے مگر …
اب ہمیں کچھ اپنی ادائوں پر بھی غور کرنا ہوگا ہم یعنی عمرہ کرنے والے اور عازمین حج حرمین شریفین میں پاکستان کے سفیر ہیں۔ اپنے طرز عمل سے وطن پاک کی عزت میں اضافہ کریں۔ رمضان المبارک میں عمرہ کرنے والوں کو مسجد نبوی اور حرم کعبہ میں افطاری پر بہترین اشیائے خوردونوش دی جاتی ہیں ’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے‘‘ یہ تو ہمارے نبی ﷺ نے دینے والا راستہ دکھا دیا ہے۔ اس لیے بھی پاک وطن کی عزت کا خیال رکھیں۔ لوٹ کھسوٹ، چھینا جھپٹی نہ کریں۔ اگر اندھا دھند لے لیا ہے تو اس کو کھا ہی لیں۔ مسجد نبوی کے صحن اور صحن کعبہ میں ہر گز نہ پھینکیں۔ مغرب کی نماز کے بعد بے حساب رزاق پیروں کے نیچے آرہا ہوتا ہے کہ چلنے کی جگہ نہیں ہوتی یاد رکھیں جتنا رزق آپ کے ہاتھوں سے پھینکا گیا ہے وہ آپ کی زندگی سے کم ہوجائے گا۔ یہ اپنی پوری زندگی کے مشاہدے کا نچوڑ ہے۔ یہ کھانا شادی کا نہیں حرمین شریفین کا تبرک سمجھ کر کھائیں۔ اتنا ہی لیں جتنا کھا سکتے ہیں۔ رمضان 1438ھ بچے ہوئے کھانے کو گاڑی آکر لے جاتی ہے۔ کھانا صرف ضرورت کے مطابق لیا جائے تو صاف ستھرا بچا ہوا کھانا کسی اور کے کام بھی آسکتا ہے۔ صفائی کا عملہ لمحوں میں صفائی کرجاتا ہے لیکن بہتر ہے کہ مقدس ترین مقامات میں پاکیزہ رزق پیروں تلے نہ آنے دیں اور مقدس مقامات کو گندہ نہ کریں۔ گندگی پھیلانے میں ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔ اس کی گواہی ہمارے سب سے زیادہ آبادی والے شہر سے مل جائے گی۔ حرمین شریفین میں بھی چلتے پھرتے، آتے جاتے بلکہ جہاں بیٹھے نماز پڑھتے ہیں وہاں بھی کچھ کھایا اور کچرا وہیں پھینک دیا۔ حرمین میں بڑے بڑے ڈسٹ بن رکھے ہیں ہم مسلمان ہیں صفائی نصف ایمان ہے یہ اپنے عمل سے ثابت کریں۔ وہ جو دس دس سال دعا مانگتے، ایک ایک روپیہ جمع کرتے کہ اللہ تعالیٰ عمرہ اور حج نصیب کرے، تو جب اللہ تعالیٰ انہیں اپنے گھر بلاتا ہے تو اللہ کے گھر کو پاک رکھنے کی کوشش کریں۔ حرم میں جہاں کہیں کچرا نظر آئے ڈسٹ بن میں ڈال دیں۔چپلیں اپنے ساتھ شاپر میں رکھیں راہ گزر میں نہ بکھیریں۔ یہ ساری باتیں حاجی کیمپ اور حج کے درس کے وقت بھی کی جانی چاہیے۔
خواتین کو چاہیے کہ اپنے لباس کا خیال رکھیں برقعے یا عبایہ بے شک دولاتی ہونگی لیکن پہنتی ایک بھی نہیں ہیں۔ کم از کم دس ریال جلابیہ (میکس) لیکر ہی اوپر لے پہن لیں۔ حرم میں تو زندہ مردوں سے پردہ کر ہی لیں۔
خواتین و حضرات کعبتہ اللہ کے سامنے کولروں سے سر پر ڈال کر آب زم زم زمین پر گراتے ہیں وہیں کھڑے کھڑے وضو کرتے ہیں کولر کے نیچے کا برتن آب زم زم سے بھر جاتا ہے جو پھینک دیا جاتا ہے۔ اس لیے آب زم زم ضائع نہ کریں۔ آب زم زم حاجیوں کی پیاس بجھانے کے لیے ایک طویل مرحلے سے گزرتا ہے۔ یہی زم زم جب آپ ایئرپورٹ سے خریدیںگے تو 5 لیٹر 9 ریال میں ملے گا۔ اگر ہوٹل کے کارکن سے لیں گے تو وہ 22 ریال میں دے گا، جولائی 2017 میں ایک ریال 30.40 Rs کیا آپ 360/00 یا 660/00 Rs اتنا قیمتی تبرک اپنے گھر میں لاکر پھینکنا پسند کریںگے۔ آب زم زم ضائع کرنے کی وجہ سے 2003 سے عام حاجیوں کے لیے زم زم کا کنواں بند کردیا گیا ہے۔
ایک بار کھانا صرف معدے کے تیسرے حصے جتنا کھائیں۔ ایک حصہ پانی اور ایک ہوا کے لیے چھوڑیں۔ یہی فرمان رسول اللہ ﷺ ہے۔