اسلام آباد( نمائندہ جسارت )سابق وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا ہے کہ انہوں نے اختلافات کی وجہ سے وزارت چھوڑی تاہم وہ اس پر اظہار خیال نہیں کرسکتے کیونکہ ایسا کرنا پارٹی کے لیے نقصان دہ ہوگا۔اتوار کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو بھی ایشوز ہیں وہ پارٹی کے اندر ہیں انہیں لیک کرنا بدیانتی ہے‘ پارٹی اور سینئرقیادت مشکل میں ہے، اس وقت معاملات سامنے لانا مناسب نہیں سمجھتا، اختلاف رائے آج بھی ہے اس وجہ سے خود کو وزارت سے الگ کرلیا۔ چودھری نثار کا کہنا تھا کہ کوئی آسانی سے کونسلر شپ سے بھی مستعفی نہیں ہوتا لیکن میں نے اپنے کہے پر عمل کرتے ہوئے وزارت داخلہ سے استعفا دیا، نواز شریف اوروزیراعظم خاقان عباسی آخر وقت تک مجھے وزارت لینے کے لیے قائل کرتے رہے لیکن میں نے معذرت کرلی۔
انہوں نے بتایاکہ طالبان سے مذاکرات پر پیپلزپارٹی، ایم کیوایم، اے این پی تیار نہ تھے، جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل ظہیرالاسلام طالبان سے مذاکرات میں آن بورڈ تھے جب کہ کراچی ائر پورٹ پر حملے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔نصف گھنٹے پر مشتمل پریس کانفرنس میں چودھری نثار نے اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کی۔ ان کے بقول ملکی سیکورٹی بہتر بنانے کے لیے پوری ایمانداری سے کام کیا،گزشتہ سوا 4سال میں دہشت گردی کا گرف نیچے آیا ہے جب کہ اب کراچی ایک شخص کے پاگل پن پر یرغمال نہیں ہوتا۔ ان کے بقول تمام کامیابیاں اسٹیک ہولڈرز کی معاونت سے حاصل کیں اور میں تنہا اس کا کریڈیٹ نہیں لینا چاہتا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت ملک میں دہشت گردوں کا کوئی تربیتی نیٹ ورک یا گراؤنڈ نہیں ہے،دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری مراحل میں ہے، صبر اور ثابت قدمی سے مقابلہ کرنا ہوگا۔
سابق وزیرداخلہ نے بتایا کہ 32 ہزار پاسپورٹ منسوخ کیے گئے۔ 10 ہزار لوگوں کے نام ای سی ایل سے نکالے۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کو وزارت داخلہ نے نہیں بلکہ عدالت کے حکم پر باہر جانے کی اجازت دی گئی۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم سچ بولنے کو روایت اپنالیں تو بہت سی خامیاں دور ہوجائیں گی، ڈان لیکس کی تحقیقات کا فیصلہ حکومت نے کیا اوراس رپورٹ کو منظرعام پر لانا چاہیے جب کہ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ڈان لیکس کی رپورٹ منظر عام پر لائے۔چودھری نثارعلی نے کہا کہ میں نے کبھی سیاست چھوڑنے کا نہیں کہا، شاید میرے سمجھانے میں مسئلہ ہوا، پارٹی میں اب بھی ہوں اور ہمیشہ رہوں گا، میڈیا میرے حوالے سے خبر چلانے سے پہلے تصدیق کرلیا کرے۔