ان کہی

262

zcl_muftiMuneebان کہی کا انگریزی ترجمہ ہم Untold کیے دیتے ہیں۔ اس عنوان کا خیال ہمیں اس لیے آیا کہ عدلت عظمیٰ کی جانب سے نااہلی اور اس کے نتیجے میں وزارتِ عظمیٰ سے معزولی کے بعد سابق وزیر اعظم جناب نواز شریف تسلسل کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ میرا سینہ بہت سے رازوں کا دفینہ ہے اور وقت آنے پر میں ان رازوں سے پردہ اٹھاؤں گا، وہ یہ بھی کہتے ہیں: ’’مجھے معلوم ہے آگے میرے ساتھ کیا ہوگا‘‘، وغیرہ۔ اس پر تجزیہ کار انہیں چھیڑتے ہیں کہ نواز شریف کے دل میں کچھ ہے، لیکن دل کی بات بتاتے نہیں ہیں، داغ دہلوی نے کہا ہے:
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں



تجزیہ کار اور اینکر پرسنز نواز شریف سے مطالبہ کر رہے ہیں: ’’کچھ تو کہیے! کہ لوگ کہتے ہیں‘‘ تاکہ گلشن کا کاروبار چلے، موافقت اور مخالفت میں مجالسِ دانش سجیں، حالاں کہ میاں صاحب جوکہنا چاہتے ہیں، وہ کوئی دس تہوں میں مستور سربستہ راز نہیں ہے، بلکہ کھلا راز ہے۔ سوال کرنے والے اینکر پرسنز اور تجزیہ کار زیادہ فصاحت وبلاغت کے ساتھ ان کے دردِ دل اور رازِدروں کو بیان کرسکتے ہیں، ان میں سے بعض اسکرپٹ رائٹر، طاقت کے غیر مرئی مراکز اور مقتدرہ وغیرہ کے اشارات وکنایات استعمال بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن صراحت کا حوصلہ کسی میں نہیں ہے، کیوں کہ یہ وہ ممنوع وادی ہے جہاں سب کے پر جلتے ہیں، بندہ ’’گویم مشکل ونہ گویم مشکل‘‘ کے کرب سے دوچار ہوتا ہے، یعنی دردِ دل کے اظہار کا حوصلہ نہیں رکھتا، کیوں کہ اس کے عواقب کا سامنا کرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتا اور جذبات کو ضبط کرنا بھی دشوار ہوتا ہے، کسی نے کہا ہے:
اگر سچ کہتا ہوں، مزا الفت کا جاتا ہے
جو چپ رہتا ہوں، کلیجہ منہ کو آتا ہے
شیخ سعدی شیرازی نے کہا ہے:
مرا سوزیست اندر دل، اگر گویم زبان سوزد
وگر پنہان کنم ترسم کہ مغز استخوان سوزد



ترجمہ: ’’میرے دل میں جذبات کا ایسا شعلہ موجزن ہے، کہ اگر انہیں زبان پر لاؤں تو خدشہ ہے کہ زبان جل جائے گی اور اگر انہیں دل میں چھپائے رکھتا ہوں تو اندیشہ ہے کہ جذبات کی حرارت سے ہڈیوں کا گودا تک جل جائے گا‘‘۔
اس طرح کے سوال کو عربی کے علم المعانی میں ’’تحصیلِ حاصل‘‘ یا ’’استعلامِ معلوم‘‘ کہتے ہیں، یعنی سائل ایک ایسا سوال کر رہا ہے جس کا جواب اسے خود معلوم ہے۔ صحیح بخاری، میں سید المرسلین ؐ کی بارگاہ میں جبریل امین ایک اجنبی شخص کے روپ میں آئے، زانوئے تلمذ تہ کر کے بیٹھ گئے اور ایمان، اسلام، احسان، قیامت اور آثارِ قیامت کے بارے میں صحابۂ کرام کو تعلیم دینے کی نیت سے سوال کرنے لگے، ان میں سے ایک سوال تھا: ’’قیامت کب آئے گی‘‘، آپ ؐ نے فرمایا: ’’قیامت کے بارے میں جس سے سوال کیا گیا ہے، وہ اُس کی بابت سائل سے زیادہ نہیں جانتا‘‘۔ یہاں عالم ہونے کی نفی نہیں ہے، بلکہ ’’اَعلَم‘‘ (سب سے زیادہ جاننے والا) ہونے کی نفی ہے اور کسی ایک چیز کے متعلق جبریل امین علیہ السلام کے ساتھ علم میں مساوات تمام کائنات (بشمول جنّ وانس وملائکہ) پرعظمتِ مصطفی ؐ کے منافی نہیں ہے۔ عرض کرنے کا مُدّعا یہ ہے کہ جو راز باخبر تجزیہ کاروں کو معلوم ہے، وہ جنابِ نواز شریف کی زبانی کہلوانا چاہتے ہیں۔



تاہم 18اگست کو جنابِ پرویز رشید نے لب کھولے ہیں اور صراحت وکنایات کے ملے جلے انداز میں بات کی ہے۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی بدروح اور اسٹیبلشمنٹ کا نام لیا ہے اور سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو بھی ذمے دار قرار دیا ہے کہ ہماری وزارت ہمارے خلاف کام کر رہی تھی اور اس کے قرائن بھی موجود ہیں۔ 28جولائی کو عدلت عظمیٰ کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے سے قبل چودھری نثار علی خان پریس کانفرنس کے لیے بے تاب تھے، میڈیا قیاس آرائی کر رہا تھا کہ فیصلہ کم از کم دو ہفتے کے لیے مؤخر ہوگیا ہے، کیوں کہ اگلے ہفتے کا روسٹرم جاری ہوگیا ہے اور پاناما بنچ کے ایک جج دس دن کے لیے بیرونِ ملک رخصت پر جارہے ہیں، البتہ جنابِ عمران خان اور جنابِ شیخ رشید جمعے کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔ پس 27جولائی کی شام جونہی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی پریس کانفرنس ختم ہوئی، اس کے آدھے گھنٹے کے بعد بریکنگ نیوز ٹیلی ویژن اسکرین پر چل پڑی کہ کل پاناما کیس کا فیصلہ سنایا جائے گا، اس سے نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ انہیں معاملات کا پتا تھا، کیوں کہ پولیس اور رینجرز کی سیکورٹی کے انتظامات ان کی وزارت کی ذمے داری تھے، اس کے علاوہ پیپلز پارٹی سے تناؤ کے ذمے داربھی وہی تھے۔



19اگست کو چودھری نثار علی خان بھی بول پڑے ہیں اور اشارتاً جنابِ پرویز رشید کو ڈان لیکس کا ذمے دار قرار دیا ہے، مزید تفصیلات 20کی شام ان کی پریس کانفرنس میں سامنے آئیں گی۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید کا ایک بیان بھی قومی میڈیا پر نظر سے گزرا: ’’جمہوریت آگے بڑھ رہی ہے، تمام ادارے ’’ایمانداری‘‘ سے کام کر رہے ہیں‘‘، اس میں اشارات تو واضح ہیں اور دانا لوگوں نے کہا ہے: ’’عاقل را اشارہ کافی است‘‘، کیوں کہ اس سے آئینی ادارے ہی مراد ہوسکتے ہیں، جن میں عدلیہ بھی شامل ہے۔
میثاقِ اَخلاق: ایک صاحبِ درد کالم نگار ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی نے معاصر قومی اخبار میں لکھا ہے: ’’سیاسی رہنماؤں کے درمیان میثاقِ جمہوریت کی طرح ایک میثاقِ اَخلاق یعنی Charter of Ethics بھی مرتب ہونا چاہیے‘‘۔ کیوں کہ ہمارے الیکٹرونک میڈیا اور سیاسی کلچر میں جو اخلاقی تنزُّل کی بیماری نفوذ کر گئی ہے، اس پر سب اہلِ نظر کو تشویش ہے۔ مہذّب اور متمدّن قوموں میں اختلافِ رائے کے باوجود باہمی احترام کا ایک رویّہ ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو دشنام اور تذلیل وتضحیک سے گریز کیا جاتا ہے، کیوں کہ اس کا ردِّ عمل بھی ناگزیر ہوتا ہے، حدیثِ پاک میں ہے:



(۱) ’’رسول اللہ ؐ نے فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ پر لعنت کرے، عرض کی گئی: یارسول اللہ! کوئی اپنے ماں باپ پر کیوں کر لعنت کرے گا؟، آپ ؐ نے فرمایا: وہ کسی شخص کے باپ کو گالی دیتا ہے اور (ردِّعمل میں) وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، وہ دوسرے کی ماں کو گالی دیتا ہے اور وہ (جواباً) اس کی ماں کو گالی دیتا ہے، (بخاری)‘‘۔
(۲) ’’رسول اللہ ؐ نے فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ پر لعنت کرے، عرض کی گئی: یارسول اللہ! کوئی اپنے ماں باپ پر کیونکر لعنت کرے گا؟، آپ ؐ نے فرمایا: وہ کسی شخص کے باپ پر لعنت کرتا ہے اور وہ (ردِّ عمل میں) اس کے باپ پر لعنت کرتا ہے، وہ دوسرے کی ماں پر لعنت کرتا ہے اور وہ (جواباً) اس کی ماں پر لعنت کرتا ہے، (سنن ابوداؤد)‘‘۔
یہی اصول قرآنِ کریم میں بیان ہوا ہے: ’’اور وہ (مشرکین) جن (باطل معبودوں) کی اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں، انہیں برا نہ کہو، مبادا وہ سرکشی اور جہالت کے سبب اللہ کی شان میں بے ادبی کرگزریں، (الانعام:108)‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص جس گناہ کا باعث بنے، اس کا وبال اس پر بھی آئے گا اور اس کے ردِّ عمل کی ذمے داری اس پر ہی عائد ہوگی۔ آج کل سیاسی رہنماؤں کے خطابات دوسروں کی تضحیک وتحقیر پر مبنی ہوتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ہمارے رہنماؤں کا اپنا رویہ اور طرزِ عمل اعلیٰ اخلاقی اقدار تو دور کی بات ہے، اوسط اخلاقی معیار پر بھی پورا نہ اترے، تو اُن کے کارکنان اور پیروکاروں سے اعلیٰ اخلاقی قدروں کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے، غالب نے کہا ہے:



مری تعمیر میں مُضمَر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا
سو ہماری ریاست کی ادارتی تشکیل میں بھی ایک خرابی در آئی ہے اور ایک وائرس نفوذ کر گیا ہے اور وہ ریاست کے اہم اداروں کے درمیان باہمی اعتماد کا فُقدان اور ایک طرح کا کمیونیکیشن گیپ ہے، اس کے لیے دوباتیں ضروری ہیں: ایک یہ کہ وقفے وقفے سے آپس میں اجلاس ہو اور اتفاقِ رائے سے پالیسیاں تشکیل دی جائیں، سو جو بھی لائحۂ عمل طے ہو، اُس کو سب اپنائیں اور اس کے اسٹیک ہولڈر بنیں۔ دوسری یہ کہ آئے دن میڈیا پر ان حساس موضوعات کو زیرِ بحث لانے کی روایت کی حوصلہ شکنی کی جائے، اس سے بحیثیت مجموعی ریاست کو فائدے کے بجائے نقصان پہنچتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو تنقید سے بالاتر اور قابلِ احترام شخصیات ہیں، انہیں معاشرے کی رہنمائی کے لیے آگے آکر مُصلِح کا کردار ادا کرنا چاہیے، اس وقت اس کی اشد ضرورت ہے۔