لیکن پاکستان میں جس کے پاس جتنا اختیار ہوتا ہے وہ اتنا ہی گردن اکڑا کر چلتا ہے ۔ وکلاء نے اپنے اتحاد سے بہت سے مراحل عبور کیے ، عدلیہ بحالی کی تحریک چلائی ، آئین اور قانون کی بالا دستی کی مہمات چلائیں لیکن عدالت کے حکم کے خلاف ہنگامہ آرائی تو عدلیہ کے وقار کے منافی ہے ۔ صرف لاہورنہیں سندھ کے وکلاء نے بھی ہڑتال کی اور احتجاجی ریلی نکالی ۔پاکستان میں تاریخ کو دیکھیں تو جب ملک میں سیاسی بحران ہوتا ہے اور اداروں کے درمیان تناؤ کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے تو اس قسم کے واقعات بھی ہو جاتے ہیں یا کرا دیے جاتے ہیں ۔ ان سب واقعات اداروں کے درمیان محاذ آرائی اور حملوں کو جمع کیا جائے تو کوئی ’’اچھی قوت‘‘ مجبوراً سارا گند صاف کرنے کے لیے آگے بڑھے گی اور یہ کہا جائے گا کہ چونکہ سیاستدان اور ادارے لڑ رہے تھے اس لیے ہمیں مجبوراًقومی اداروں کو بچانے اور ریاست کے مفاد میں اقدام کرنا پڑا ۔
اس سازش کو روکنا اور سمجھنا تمام سیاسی جماعتوں کا بھی کام ہے اور وکلاء کو بھی سمجھنا چاہیے کہ ان کی وجہ سے کوئی نقصان نہ ہو جائے یا وہ کسی نقصان میں استعمال نہ ہو جائیں ۔ اگر وکلاء ہی عدالت کے فیصلوں کو نہیں مانیں گے تو دوسرے لوگ کیونکر مانیں گے ۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ جن وکلاء نے ہنگامہ کیا ان کا تعلق کس سیاسی جماعت سے ہے ۔ یا وہ کس کے حامی ہیں۔۔۔ کہیں یہ بھی عدالتوں کے خلاف مسلم لیگ ن کے میچ کا حصہ تو نہیں ۔ مسلم لیگ ن کے رہنما میاں نواز شریف اور ان کا خاندان نیب میں پیش نہیں ہور ہا ۔ گویا ان کے نزدیک عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے کچھ نہ کچھ تو ہے جس کی تیاری ہے ۔ سیاسی قائدین کو سر جوڑ کر صورتحال پر قابو پانا ہو گا ۔