بارش نے قلعی کھول دی

248

Edarti LOHکراچی سمیت پورے سندھ میں طوفانی بارش نے کئی شہروں کو زیر آب کر دیا سب سے پہلا حملہ بجلی پر ہوتا ہے ۔ پہلا قطرہ گرا اور بجلی غائب ۔ پیر کے روز بھی یہی ہوا ۔کراچی و حیدرآباد کی بجلی ایک چھینٹا پڑتے ہی غائب ہو گئی ۔ نصف شہر تاریکی میں ڈوب گئے ۔ جماعت اسلامی اور دیگر ہزاروں شکایت کنندگان کے مؤقف کی ایک بار پھر تصدیق ہو گئی کہ کراچی میں کے الیکٹرک کے تانبے کے تار بدل کر ایلومینیم کے تا رلگانے سے بجلی کی فراہمی میں تعطل پیدا ہوتا ہے ۔ یہ تار جلدی گر جاتے ہیں اور ان سے فراہمی بھی رواں نہیں رہتی ۔ بات صرف کے الیکٹرک کی نہیں جس وقت بارش شروع ہوئی آندھی آئی پورے سندھ کے کسی شہر کو محکمۂ موسمیات نے کسی قسم کی انتباہی خبر نہیں دی ۔۔۔ گویا محکمۂ موسمیات بھی اس تباہ کن بارش کی آمد سے بے خبر تھا ۔ بلدیات کے عملے کو چھٹیاں منسوخ کر کے سڑکوں پر رہنے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن سڑکوں پر محلوں کے نوجوان ہی ٹریفک کی رہنمائی کر رہے تھے کہ کہاں درخت گرا ہوا ہے اور کہاں کھمبا گر گیا ہے ۔



ایسے وقت پر کروڑوں روپے تنخواہوں کی مد میں وصول کرنے والے سٹی وارڈن کہاں تھے ۔ بلدیہ کا عملہ سڑکوں پر نہیں تھا ۔ دفتروں میں بھی نہیں تھا ۔ بارش ہوتے ہی گٹر اُبل پڑے جس سے واٹر بورڈ کی ساری کار گزاری سامنے آ گئی ۔اس ادارے سے تو پہلے ہی عوام نالاں تھے کہ ان کے گھروں کی لائنوں میں انسانی فضلے والا پانی فراہم کیا جا رہا ہے جگہ جگہ پانی اور گٹر کی لائنیں ملی ہوئی ہیں۔ جگہ جگہ گٹروں کے ڈھکن غائب ہیں نالوں میں کچرا اور پانی سڑکوں پر ہے ۔ سڑکیں اس سیوریج کے پانی کے سبب خراب ہو کر ٹوٹ پھوٹ رہی ہیں ۔ بلدیہ کا جو عملہ صفائی پر مامور ہے وہ بھی اپنی ذمے داری پوری نہیں کرتا اور ہر علاقے میں’’فٹیگ پارٹی‘‘ کے نام پر مال بٹورنے کا دھندا چلتا ہے ۔ پورا پورا ہفتہ بلدیہ کا عملہ کوئی کام نہیں کرتا اور ہنگامی صورتحال کے نام پر فٹیگ پارٹی لگائی جاتی ہے ۔ بلدیہ ، سٹی و ارڈن ، واٹر بورڈ، کے الیکٹرک ،محکمہ موسمیات کسی محکمے نے اپنا کام نہیں کیا ۔ پھر ان سے بڑھ کر سڑکوں پر ایسے ہنگامی موقع پر پولیس کی اضافی نفری کی ضرورت تھی لیکن وہ بھی کہیں نظر نہیں آ رہے تھے ۔



ویسے تو پولیس سے رہنمائی کے بجائے لوگ خوف ہی کھاتے ہیں لیکن جس ادارے کا جو فریضہ ہے وہ اس کی ادائیگی کے لیے موجود تو رہے ۔ منگل کے روز بھی بارش اور ہواؤں نے اس صورتحال کی قلعی ایک مرتبہ پھر کھول دی ۔ دوروزہ بارش میں 20 افراد کی ہلاکتوں کی اطلاع ہے ۔ شہر میں درجنوں کھمبے گر گئے بڑے بڑے درخت جڑ سے اُکھڑ گئے اور راستے بند ہو گئے لیکن اسکولوں میں تعطیل کے حوالے سے محکمۂ تعلیم بھی سوتا رہا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آدھے بچے اسکول گئے ۔ آدھے نہیں جا سکے ۔ بچوں کا تعلیمی نُقصان بھی ہوا اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے بچوں کو اسکول پہنچانے میں والدین کو پریشانی بھی ہوئی ۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ عوام کو ٹیکس وصول کرنے اور حکومت کے اخراجات وصول کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے ان کے تحفظ حقوق اور دیکھ بھال کا ذمہ کسی محکمے کے پاس نہیں ۔



حکومت کے الیکٹرک سے تو حساب لے کہ اس کا نظام اس قدر کمزور کیوں ہو گیا ہے ۔ اپنے بلدیاتی عملے کی تو گرفت کرے کہ وہ کہاں چلا گیا تھا ۔ جب تک سختی سے ان امور پر توجہ نہیں دی جائے گی عوام اسی طرح بے یارو مدد گار رہیں گے ۔ گزشتہ دنوں اختیارات کے حوالے سے میئر کراچی اور حکومت سندھ میں کھینچا تانی تھی حکومت کہتی ہے کہ جتنے اختیارات ہیں وہ تو استعمال کرو۔۔۔ لیکن اب عوام مشکل میں ہیں تو خدمت کا سہرا اپنے سر باندھنے کو کوئی آگے نہیں بڑھ رہا ۔