پاکستان کی طرف سے قسطوں میں احتجاج کا فیصلہ کیا گیا ہے ٹرمپ کے بیان کے بعد پاکستان کی عبوری کابینہ کا طویل اجلاس ہوا اور اس کے بعد اس اجلاس سے جو کچھ برآمد ہوا وہ یہ تھا کہ ہم نے پیسے لے کر نہیں خون دے کر جنگ لڑی ۔ بیان تکلیف دہ ہے ۔ پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم نہیں کیا گیا ۔ پھر دبے لفظوں میں کہا گیا کہ افغانستان کی شکست کا بدلہ پاکستان پہ نہ ڈالا جائے اور پھر یہ بھی کہا گیا کہ ہمیں امریکی امداد کی ضرورت نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ٹرمپ کے بیان پر جواب دینے کے لیے اتنا طویل اجلاس بلانے کی ضرورت نہیں تھی بس صرف اتنا کہا جاتا کہ ہم آپ سے افغانستان میں تعاون ختم کرتے ہیں آپ اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی مضبوط حکومت نہیں ۔ اگر میاں نواز شریف بھی حکمران ہوتے تو وہ بھی کوئی ٹھوس ور مضبوط جواب نہ دے سکتے تھے۔ بلکہ وہ توبھارت کے دہشت گرد مودی کو دو ٹوک جواب نہیں دے سکتے۔ امریکی دھمکی نے یہ ضرورت پھر ثابت کر دی کہ پاکستان میں ایک جرأت مند نڈر اور محب وطن قیادت کی ضرورت ہے ۔
جہاں تک پاکستانی جواب کا تعلق ہے کہ ہم نے پیسے لے کر نہیں خون دے کر جنگ لڑی ہے تو یہ بات حقیقت کے منافی ہے ۔ کسی نہ کسی عنوان سے پیسے بھی لیے گئے اور وہ امریکیوں نے وعدے سے کم دیے لیکن ہمارے حکمرانوں پر اپنے ہی بھائیوں پر بمباری اور ان کے مکانات مسمار کرنے کی قربانی کا بھوت سوار ہے اس لیے اس کے جو بھی پیسے مل رہے تھے لیے گئے ، کسی نے جنرل پرویز مشرف سے اس کا حساب نہیں لیا کہ وہ کتنے پیسے کس کس مد میں وصول کر گئے اور یہ جو کہا گیا ہے کہ ہم کو امریکی امداد کی ضرورت نہیں ۔ یہ بات کہنے سے قبل طاقت کے اس مرکز سے تو مشورہ کر لیا ہوتا جو پیسے لینے کا فیصلہ کرتا ہے بہر حال ٹرمپ کی دھمکی کا جواب یہ بھی نہیں جو وزیر داخلہ احسن اقبال نے دیا ہے کہ ہمیں دھمکی کی پروا نہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے ۔ احسن اقبال صاحب بتائیں کہ جن لوگوں کو آپ دہشت گرد کہہ رہے ہیں وہ کون ہیں ۔ وہ تو امریکا کے دشمن ہیں ۔ تو آپ کو کیا کہ امریکا کے دشمنوں سے افغانستان جا جا کر لڑیں ۔ صاف کہہ دیں کہ پاکستان کو کسی سے خطرہ ہوا تو جنگ لڑیں گے امریکی جنگ سے ہم باہر نکل رہے ہیں ۔
یہ جو ٹرمپ ہے اس کے بارے میں تو کوئی بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ وہ کب تک اقتدار میں رہے گا ایسے آدمی کی بڑھک کو شمالی کوریا نے بھی سنجیدہ نہیں لیا بلکہ امریکا کا سنجیدہ حلقہ ایسی دھمکیوں والی زبان پر صدر امریکا ہی پر تنقید کر رہا ہے ۔ اور جس کو دھمکی دی جا رہی ہے وہ پہلے تکلیف کا اظہار کر رہا ہے پھر دو دن بعد قومی سلامتی کا اجلاس بلایا گیا ہے ۔ وہاں مشورہ ہو گا کہ امریکا سے پیسے لینے ہیں یا نہیں ا رے بہت واضح اور دو اور دو چار کی طرح ہے کہ جنگ امریکا کی ہے ۔ اس کے پیسے لیں یا خود دیں نقصان پاکستان ہی کو ہو گا ۔ نتائج بھی پاکستان کو بھگتنے ہوں گے ۔ ایک دفعہ اس جنگ سے الگ ہو جائیں اس کے نتائج بھی بھگت لیں۔۔۔ لیکن پھر امن ہو گا ۔ا فغانستان میں امریکیوں کی پسند کے حکمران ہیں ، بھارت کے ہزاروں ایجنٹ ہیں اس سے کہا جائے کہ جاؤ لڑو۔۔۔ ویسے عیسائی جوکروسیڈ لڑ رہے ہیں جس کا اعلان بش نے کہا تھا تو ان کو اس جواب کی یاد دہانی کرائی جانی چاہیے جو ان کے باپ دادا نے حضرت عیسیٰ ؑ کو دیا تھا کہ جاؤ تم اور تمہارا خدا لڑو ہم تو یہاں کھڑے ہیں ۔ آج کروسیڈ لڑنے والوں کو یہی پیغام دیا جانا چاہیے۔۔۔ کیونکہ وہ زمین میں فساد پھیلا رہے ہیں امن نہیں ایسو کی جنگ میں فساد ہی ہو گا اس سے امن قائم نہیں ہو گا ۔ پاکستان نے جتنا نقصان اٹھایا ہے جتنے نتائج بھگتے ہیں وہ اسی جنگ کے ہیں ۔ اب اور کیا نتیجہ بھگتیں گے۔