اصل کامیاب کون ہے؟؟

645

zc_GhazalaAzizبڑا ہی بدقسمت ہے وہ انسان جس کے ساتھ ایسے شیاطین جن وانس لگ جائیں جو اسے ہر طرف ہرا ہی ہرادکھاتے رہیں۔ اس کی حماقتوں کو اس کے سامنے خوشنما بناکر پیش کریں اور اسے کبھی نہ خود صحیح بات سوچنے دیں۔ نہ کسی دوسرے سے سننے دیں۔ اس طرح کے نادان لوگ ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ دنیا میں وہ ایک دوسرے کو خوب بڑھاوے اور چڑھاوے دیتے ہیں۔ایک دوسرے کو شیڈ دیتے ہیں نہلے پہ دہلا مارتے ہیں۔ لیکن قیامت کے روز شامت اعمال لانے کے لیے ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر جرم ثابت کرنے کے لیے آمادہ ہوں گے۔
اللہ ہم سب کو اُن سے اپنی پناہ میں رکھے۔ سب سے بڑھ کر ہمارے راہنماؤں کو ۔خاص طور سے ان کو جو حکمران بھی ہوں کہ اُن کی حماقتیں ساری قوم کو بھگتنا پڑجاتی ہیں۔ پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعد نواز شریف اور ہمنوا کا سوال سوشل میڈیاپر خوب گھومتا رہا۔ کسی ایک میسج میں لکھا گیا’’خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے اپنا نیا مشن خلا میں بھیج دیا ہے تاکہ ایک اہم سوال کا ممکنہ جواب حاصل کیا جاسکے۔ سوال کو دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمہ کرکے خلا میں سگنلز کی شکل میں پھیلایا گیا ہے تاکہ کسی سیارے کی کسی خلائی مخلوق کی طرف سے کسی زبان میں جواب حاصل ہوسکے۔



ناسا کے سائنس دان اگر اس سوال کا جواب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو امید ہے کہ کائنات کے چھپے ہوئے راز آشکار ہوسکیں گے۔ یہ سوال جس کی پوری دنیا میں ہی نہیں خلاء میں بھی گونج محسوس کی گئی وہ یہ ہے ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘
یہ سوال پاکستان کے لیے زیادہ اہم تھا لہٰذا اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے ملک کے کئی ادارے اور سینئر ترین ارکان نے بھی باقاعدہ اجلاس بلایا۔ غور کے لیے کافی بیٹھکیں ہوئیں لیکن معاملہ وہیں کا وہیں رہا۔بالاآخر ایک صاحب عقل ودانش دوسرے سے ایک معاملے پر بحث ومباحثہ کرہی رہے تھے کہ کسی ادارے کے قاصد نے ایک فائل لاکردی کہ اس میں سوال جواب موجود ہیں۔ یہ خاص فائل نواز شریف کے ہاتھوں میں دے دی گئی۔ فائل اٹھاکر انہوں نے جائزہ لیا فائل میں عدالت کے فیصلے کا اردو ترجمہ لگا تھا۔ سارے چہرے مایوسی سے لٹک گئے۔



بہر حال راولپنڈی، جہلم، گجرات اور گجرانوالہ میں اپنی ریلیوں جلسے جلوسوں میں وہ رقت آمیز انداز میں یہی سوال اٹھاتے رہے۔ جی ٹی روڈ شو کے بعد عوام ہی نہیں خود حکومتی جماعت بھی ایک طرف سے سائلنس موڈ میں آگئی۔ عوام تو خیر گومگو میں رہتے ہی ہیں لیکن وزراء اور مشیروں کے بڑے بڑے نام گویا منہ میں گھنگنیاں ڈال کر بیٹھ گئے ہیں۔ نو آموز اور ناتجربہ کار وزراء اور مشیر نواز شریف کے لیے ہمدردی کے حصول کے لیے سرگرم ہوگئے۔وہ عدالتی فیصلے کے سیاسی محرکات بیان کرتے رہے۔ مشرف کے خلاف مقدمے، اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت اور سی پیک ۔ ان کی یہ کوشش عدالتی فیصلے کو ایک سیاسی فیصلہ قرار دینے کی کوشش تھی یہ عدالت کو فریق بنانے کی جسارت ہے۔ بلاشبہ نواز شریف کے حالی موالی انہیں روز ٹی وی اسکرین پر آکر عدالت کو ملعون کرانے میں کامیاب رہے۔ ان کی کوشش عدلیہ کے احترام میں شگاف ڈالنا ہے۔ جس پر انہوں نے نوازشریف کوآمادہ کرکے کوئی قومی خدمت انجام نہیں دی۔ نوازشریف کے لیے بھی یہ خدمت نہیں کہ انہوں نے قدموں میں کانٹے بونے کا کام انجام دیا ہے۔



اب بھی نوازشریف پارٹی کے مخلص اور تجربہ کار رہنماؤں سے مشورے کے ذریعے گہری ہوتی دلدلی زمین کو اپنے قدموں کے نیچے کچھ ٹھوس بناسکتے ہیں۔ ن لیگ میں اہل دیانت دار اور قربانی دینے والی شخصیات موجود ہیں۔ لیکن نوازشریف اپنے اردگرد خوشامدی بڑبولے اور بونے لوگوں کو پسند کرتے ہیں ان کے سیاسی سفر کی طویل تاریخ گواہ ہے کہ وہ محسنوں سے بے وفائی اور بے رُخی یعنی دوسرے الفاظ میں محسن کشی میں بے مثال ہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی ، میاں زاہد سرفراز، محمد اظہر ، اکبر خان بگٹی اور کتنے ہی لوگ جو اس کے سیاسی سفر میں رفیق تھے۔ انہیں بے توقیری اور بے رُخی کا سامنا کرنا پڑا پھر سب سے بڑا نام قاضی حسین احمد انہیں اور اُن کی جماعت کو خوب ستم گری کا نشانہ بنایا۔



اصولی اور نظریاتی سیاست سے نوازشریف کو سدا ہی بیر رہا ہے۔لیکن افسوس کے انہوں نے طاقت کے گھمنڈ میں اپنے مخلص اور وفادار ساتھیوں کی بھی ایک نہ سنی۔ بہرحال سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ لیکن اصل سچ وہی ہوتا ہے جو وقت پر بولااجائے۔ اور اصل کامیاب وہی ہے جو اپنے اردگرد سچے مخلص اور وفادار دوست رکھتا ہوجوسیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہنے کی جرأت رکھتے ہوں۔