کانفرنس میں دعوت قبول کرنے کے باوجود بڑی اور اہم سیاسی جماعتوں نے شرکت سے عین وقت پر معذرت کرلی۔ تاہم جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ ہم نے کانفرنس میں شرکت کے بارے میں اسی وقت بتادیا تھا کہ مشاورت کے بعد شرکت اور عدم شرکت کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ یقیناًیہ صورت حال ایم کیو ایم اور اس کے رہنماوں کے لیے دکھ اور تکلیف کا باعث ہوگی۔ تاہم اسے بھی ڈاکٹر فاروق ستار نے سنبھالا۔ اے پی سی کو منسوخ کرکے انہوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے اسٹیج کو پریس کانفرس میں تبدیل کردیا۔ اس موقع پر انہوں رنجیدہ لہجے میں کہا کہ ’’اب کسی سے حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں، سیاسی جماعتوں نے طے شدہ اے پی سی میں آنے کا وعدہ کرنے کے باوجود نہ آکر لندن کے پاکستان مخالف موقف کی توثیق کر دی ہے‘‘۔
ایم کیو ایم کی آل پارٹیز کانفرنس آخر کیوں ناکام ہوئی؟ اگر سیاسی جماعتوں نے وعدہ کیا تھا تو کیوں نہیں آسکیں؟ کیا انہیں کسی جانب سے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اشارہ دیا گیا تھا؟ ہوسکتا ہے کہ کانفرنس میں شرکت نہ کرنے والی جماعتوں کو یہ شبہ ہوگیا ہو کہ ’’یہ تو پرانی ایم کیو ایم کو دوبارہ متحد کرنے کا پروگرام ہے؟‘‘۔ یہ شک اس لیے بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ متحدہ کی اس کانفرنس میں مہاجر قومی موومنٹ اور پاک سر زمین پارٹی بھی شریک ہورہی تھیں بلکہ اس مقصد کے لیے ان دونوں پارٹیوں کے رہنماء ہوٹل پہنچ چکے تھے۔
ان دونوں جماعتوں کے رہنماء آفاق احمد اور مصطفی کمال و انیس قائم خانی چوں کہ ایم کیو ایم ہی سے بغاوت کرکے علیحدہ پارٹیاں بنا چکے ہیں۔ آفاق احمد اور مصطفی کمال کو الطاف حسین سے شکایات تھیں بالکل اسی طرح جیسے ڈاکٹر فاروق ستار کو الطاف حسین کی گزشتہ سال 22 اگست کی تقریر کے بعد شکوے اور شکایات پیدا ہوئیں تھیں۔ موجودہ ایم کیو ایم جس نے آل پارٹیز کا اہتمام کیا تھا سے الطاف حسین کا کوئی تعلق نہیں۔ باوجود اس کے بڑی اور نامور سیاسی جماعتوں نے کانفرنس میں شریک نہ ہوکر یہی پیغام دیا ہے کہ ’’یہ وہی ایم کیو ایم ہے جس نے شہر کو تین دہائیوں تک یرغمال بنائے رکھا تھا‘‘۔
سیاسی جماعتوں کے شکوک اپنی جگہ مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ ’’مہاجروں‘‘ کے ان تینوں گروپوں کو عام لوگ ایک جیسا ہی سمجھتے ہیں۔ کراچی آپریشن اور اس کے نتائج سامنے آنے سے قبل تک یہ تینوں جماعتیں ایک دوسرے کی مخالف ہی رہی ہیں۔ اب عام انتخابات سے محض آٹھ ماہ قبل ایسا کیا ہوگیا ہے کہ یہ اپنے اختلافات کو بھلاکر ’’ہم پیالہ اور ہم نوالہ‘‘ ہونے کو تیار ہوگئیں؟۔
اگرچہ سادہ لوح اور محدود سوچ رکھنے والے مہاجروں کی بڑی تعداد کی خواہش ہے کہ مہاجر جماعتوں کو متحد ہوکر کام کرنا چاہیے تاکہ ان کے حقوق کا تحفظ ہوسکے۔ ایسی خواہش رکھنے والے یہ بات جاننے کے باوجود کہ مہاجروں کو 35 سال سے متحد رکھنے کا مصنوعی تاثر دینے کے باوجود مہاجروں کو سب سے زیادہ نقصان اسی ایم کیو ایم یا متحدہ کے دور ہی میں تو ہوا ہے۔ جس میں قائد کا غدار موت کا حق دار کا نعرہ لگاکر ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں نوجوانوں کو قتل کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ دفاع کے نام پر قائد کے وفاداروں کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ کیا گیا تھا۔ اس لیے مہاجروں کا سمجھ دار طبقہ اس خواہش کے باوجود کہ مہاجر متحدہ رہیں یہ نہیں چاہتا کہ متحدہ یا ایم کیو ایم سے ماضی میں وابستہ رہنے والے مجرمانہ ذہن کے لوگ دوبارہ متحد ہوجائیں۔
ماضی کی طرح آج بھی بہت سارے لوگ ایم کیو ایم اور اس سے منحرف جماعتوں سے وابستہ افراد کو ہی مہاجر تسلیم کرتے ہیں جب کہ حقیقت یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی، جمعیت علماء پاکستان اور پیپلز پارٹی میں بھی مہاجروں کی بڑی تعداد ہے۔آج بھی جماعت اسلامی کراچی میں مہاجروں کا غلبہ ہے مگر وہ اللہ کے احکامات کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اور گزارنے کا سبق دیتے ہیں۔ ان جماعتوں کے علاوہ اب تحریک انصاف میں بھی مہاجر شامل ہوچکے ہیں۔
مہاجروں سے مخلص ہونے کے دعویداروں کو اپنے گروپوں کو یکجا کرنے سے قبل اپنے طرز سیاست کو بدلنا ہوگا ان کو یہ بات ثابت کرنا پڑے گی کہ وہ صرف اجتماعی طور پر ہی نہیں بلکہ انفرادی طور پر بھی لوگوں سے مخلص ہیں اور ان کو درپیش مسائل کا سدباب کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ مہاجر قوم کے ساتھ دیگر قوموں کو بھی ترقی دیکر اس جگہ پہنچانا چاہتے ہیں جیسے کہ وہ خود موٹر سائیکلوں سے لگژری گاڑیوں اور 80 اور 120 مربع گز کے گھروں سے آج چار سو سے ہزار گز کے بنگلوں تک کے مالک بن چکے ہیں۔ انہیں زمینوں پر قبضے سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے بڑے لینڈ مافیا کے ساتھی بننے کے بجائے سچے اور ایماندار سیاسی اور سماجی کارکن بننا چاہیے۔ مہاجر قوم کو کراچی سمیت صوبے بھر کے شہریوں سے مخلص بن کر دکھانا ہوگا اور یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ ان کا تعلق بھتا خور اور ٹارگٹ کلرز سے نہیں ہے بلکہ وہ مہاجروں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے صاف ستھری سیاست کرتے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو یہ بھی یقین کرلینا چاہیے کہ وہ جس قوم کی لیڈری کا دعویٰ کرتے ہیں وہ بیوقوف نہیں۔ اب سب ہی یہ جان چکے ہیں کہ جلسوں کی کامیابی کے لیے مختلف ملوں اور فیکٹریوں کے علاوہ تعمیراتی پروجیکٹ سے کس طرح افرادی قوت حاصل کی جاتی ہے۔ اس لیے جلسوں کی کامیابی کے بجائے اپنی جدوجہد کی کامیابی کے لیے انہیں توجہ دینی چاہیے۔
اے پی سی کی ناکامی اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ابھی ایم کیو ایم اور ان کے ساتھ کھڑی جماعتوں کو عوام کا اعتماد حاصل نہیں ہے۔ کراچی سمیت ملک بھر کی سیاسی شخصیات کو ہمیشہ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ مکافات کے عمل میں اللہ کی طرف سے اب دیر بھی نہیں ہوتی چار سال کے محدود وقت میں بدعنوان حکمرانوں کی پکڑ شروع ہوچکی جو ان شاء اللہ ہر کرپٹ عنصر کے احتساب تک جاری رہے گی اس لیے بہت سوچ سمجھ کر اور مکمل ایمانداری کے ساتھ سیاست کرنے کی ضرورت ہے اس لیے کہ اب سیاست کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ ان شاء اللہ بند ہونے کو ہے ۔