حج ایک عاشقانہ سفر

359

خورشید عالم داود
حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے جن پر اسلام کی بنیاد قائم ہے۔ حج کی فرضیت قرآن کریم، حدیث اور اجماع امت سے ایسے ہی ثابت ہے، جیسے نماز، روزے اور زکوٰۃ کی فرضیت ثابت ہے۔ اس لیے جو شخص حج کی فرضیت کا انکار کرے، وہ کافر ہے۔
انسانی طبیعت یہ تقاضا کرتی ہے کہ انسان اپنے وطن، اہل وعیال ، دوست ورشتے دار اور مال ودولت سے انسیت ومحبت رکھے اور ان کے قریب رہے۔ جب آدمی حج کے لیے جاتا ہے تو اسے اپنے وطن اور بیوی و بچے اور رشتے دار واقارب کو چھوڑ کر اور مال ودولت خرچ کرکے جانا پڑتا ہے۔ یہ سب اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ حج کی ادائیگی شریعت کا حکم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے حج کے حوالے سے بہت ہی رغبت دلائی ہے، انسان کو کعبہ مشرفہ کے حج و زیارت پر ابھارا، مہبط وحی و رسالت کے دیدار کا شوق بھی دلایا ہے اور سب سے بڑھ کر شریعت نے حج کا اتنا اجر وثواب متعین فرمایا ہے کہ سفرِ حج ایک عاشقانہ سفر بن جاتا ہے۔ ذیل کے سطور میں، حج کا اجر و ثواب احادیث شریفہ کی روشنی میں، ملاحظہ فرمائیے!
حج انتہائی نیک عمل ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سے اعمال اچھے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا‘‘۔ پوچھا گیا پھر کونسا؟ فرمایا: ’’اللہ کے راستے میں جہاد کرنا‘‘۔ پوچھا گیاپھر کونسا؟ ارشاد فرمایا: ’’حج مبرور‘‘۔ (بخاری)
حج مبرور کیا ہے؟
*وہ حج جس کے دوران کسی گناہ کا ارتکاب نہیں ہوا ہو۔
*وہ حج جو اللہ کے یہاں مقبول ہو۔
*وہ حج جس میں کوئی ریا اور شہرت مقصود نہ ہو اور جس میں کوئی فسق و فجور نہ ہو۔
*وہ حج جس سے لوٹنے کے بعدگناہ کی تکرار نہ ہو اور نیکی کا رجحان بڑھ جائے۔
*وہ حج جس کے بعد آدمی دنیا سے بے رغبت ہوجائے اور آخرت کے سلسلے میں دلچسپی دکھا ئے۔
حج مبرور کی فضیلت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرے تک ان (گناہوں) کا کفارہ ہے، جو ان دونوں کے درمیان ہوئے ہوں، اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے‘‘۔ (بخاری)
حج پچھلے سارے گناہوں کو مٹادیتا ہے
ابن شِماسہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، جب کہ وہ قریب المرگ تھے۔ وہ کافی دیر تک روئے، پھر انھوں نے اپنا چہرہ دیوار کی طرف کرلیا۔ اس پر ان کے صاحبزادے نے چند سوالات کیے۔ پھر انھوں نے (اپنے اسلام قبول کرنے کی کہانی سناتے ہوئے) فرمایا: جب اللہ نے میرے قلب کو نور ایمان سے منور کرنا چاہا؛ تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا داہنا دست مبارک پھیلائیں؛ تاکہ میں بیعت کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھیلایا، پھر میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عمرو! تجھے کیا ہوا؟ میں نے کہا: میری ایک شرط ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری کیا شرط ہے؟ میں نے کہا: میری مغفرت کردی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اسلام (قبول کرنا) پہلے (کے تمام گناہوں)کو مٹا دیتا ہے؟ ہجرت گزشتہ گناہوں کو مٹادیتی ہے اور حج پہلے (کیے ہوئے گناہوں)کو مٹا دیتا ہے۔ (مسلم)
ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اور اس نے (اس دوران) فحش کلامی یا جماع اور گناہ نہیں کیا؛ تو وہ (حج کے بعد گناہوں سے پاک ہوکر اپنے گھراس طرح) لوٹا، جیسا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو‘‘۔