قربانی کی حقیقت

829

مفتی محمد راشد
اگر قربانی کی حقیقت پر نظر ہو تو کوئی بھی وسوسہ پیدا نہیں ہو سکتا، قربانی تو یادگار ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اپنا بیٹا ذبح کرو، حالانکہ دوسری طرف خود قرآن کا اعلان ہے کہ قتل کی سزا ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا ہے۔ نیز، بچوں کو تو جہاد کی حالت میں بھی قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے، الغرض عقل کبھی بچے اور بالخصوص اپنے معصوم بچے کے قتل کو تسلیم نہیں کر سکتی، لیکن قربان جائیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر کہ انہوں نے اللہ سے یہ نہیں پوچھا کہ اے اللہ! جو بچہ مجھے سال ہا سال دعائیں مانگنے کے بعد ملا، آخر اس کا قصور کیا ہے؟ اور اگر قصور ہے بھی تو اس کو مارنے سے کیا حاصل ہوگا؟ نہیں ، اس لیے کہ جہاں اور جس کام میں اللہ کا حکم آ جاتا ہے وہاں چوں چرا کی گنجائش نہیں رہتی، چاہے نفع نظر آئے یا نقصان۔
دوسری طرف قربانی کے جانور پر آنے والے اخراجات کا جائزہ لیجیے، آج کے اس مہنگائی کے دور میں بڑے جانور میں حصہ لینے کے لیے آٹھ یا نو ہزار روپے کافی ہیں اور اگر چھوٹا جانور لینا چاہیں تو پندرہ سے بیس ہزار روپے میں کام چل جاتا ہے۔ اس جائزے کے بعد سوچیے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں حکم ہو کہ تمہیں اختیار ہے کہ تم اپنا بیٹا قربانی کے لیے ذبح کرو، یا اس کی بجائے (پندرہ سے بیس ہزار روپے کا) جانور ذبح کرو۔ تو بتلائیے کہ کون کس کو ترجیح دے گا، یقیناًبیٹے کے ذبح کے مقابلے میں ہر عقل مند جانور ذبح کرنے کو ترجیح دے گا۔ اب ایک نظر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرف بھی ڈالیے کہ جب ان کو بیٹا ذبح کرنے کاحکم ملا (اور حکم بھی صراحۃ نہیں ملا، بلکہ خواب میں اشارۃً بتلایا گیا) تو انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی رْک کر یہ نہ پوچھا کہ یا باری عز وجل، اس میں میرے لیے کیا نفع ہے اور کیا نقصان؟ اور ایک ہم ہیں کہ معمولی سا جانور ذبح کرنے کا حکم دیا گیا اور ہم پوچھتے پھرتے ہیں کہ اس میں میرا کیا نفع ہے؟ اس کے بجائے یہ ہو جائے، وہ ہوجائے، وغیرہ وغیرہ۔۔۔
یہ رویہ قربانی کی روح کے خلاف ہے۔ یہ سوال کرنے والا درحقیقت قربانی کی حقیقت سے ہی ناواقف ہے، قربانی کے ذریعے تو یہ جذبہ پیدا کرنا مقصود ہے کہ جب اللہ رب العزت کی طرف سے کوئی حکم آ جائے تو ہم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے اللہ کے حکم کی پیروی کریں، اس کے حکم کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کریں، اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ’فلما اسلما‘ جب انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا۔۔۔
اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ قربانی محض رسم یا دل لگی نہیں ہے، بلکہ اس کے ذریعے ایک ذہنیت دینا مقصود ہے، جسے فلسفۂ قربانی کا نام دیا جاتا ہے، وہ یہی ہے کہ جب اللہ رب العزت کی طرف سے کوئی حکم آجائے تو ہم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کے بجائے اللہ کے حکم کی پیروی کریں، اس کے حکم کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کریں۔سو ضرورت ہے کہ منکرینِ قربانی، ملحدین اور مستشرقین وکفار کے اس زہریلے پروپیگنڈے کے مقابلے میں اہلِ اسلام پْرزور طریقے سے اس حکم پر عمل پیرا ہوں، اسی میں اہلِ اسلام کی خیر وبقا کا راز اور دینِ اسلام کی حفاظت مضمر ہے۔ اللہم وفقنا لما تحب وترضیٰ