مجھے تو کوئی اور کام بھی نہیں آتا

374

zc_Nasirستر برس قبل قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ہمیں پاکستان کا تحفہ دیا تھا۔ ایسا قیمتی تحفہ جسے ہم عقیدتاً مملکت خداداد کہتے ہیں۔ قائد اعظم کے بعد لیاقت علی خان آئے جو ملت پر شہید ہوگئے، ان کے بعد کوئی لیڈر، کوئی رہنما نہ آیا، سبھی سیاست کار آئے یوں سیاست تجارت بن گئی۔ نااہل ہونے والے وزیراعظم میاں نواز شریف کو وزیر اعظم ہاؤس سے نکالے جانے کا دُکھ نہیں کہ وہ اس کے عادی ہیں، ان کا اصل دُکھ یہ ہے کہ:
کروں گا کیا جو سیاست میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اس کے سوا اور کوئی کام بھی تو آتا نہیں
عزت مآب چیف جسٹس پنجاب سید منصور علی شاہ نے حسب دستور یوم آزادی کے موقعے پر کہا کہ من حیث القوم ہم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے ممنون ہیں جنہوں نے ہمیں آزادی کا خوبصورت اور قیمتی تحفہ دیا۔ بہتر ہوتا اگر چیف صاحب اظہار ممونیت کے ساتھ قائد اعظم پر اُنگلیاں اُٹھانے والوں کے ہاتھ توڑنے کی نوید بھی سناتے۔



چیف صاحب نے یہ خوش خبری بھی سنائی ہے کہ ان کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوئے ہیں، یہاں خاص و عام کی کوئی تخصیص نہیں، انصاف اور فوری انصاف ہر شہری کا بنیادی حق اور یہ حق ناقابل تنسیخ ہے۔ چیف صاحب نے جو کچھ فرمایا بجا سہی مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فوری انصاف کے لیے آدمی کا خاص ہونا بہت ضروری ہے ورنہ…. زندگی بھر پیشیاں بھگتنا اس کا مقسوم ہے۔ عدالتوں کے دروازے ہر شہری کے لیے کھلے ہوئے ہیں مگر یہ دروازے چوہے دان کے دروازے ہیں، عام آدمی اگر ایک بار عدالت کے دروازے میں داخل ہوگیا تو اس کی واپسی بہت مشکل ہے، کوئی قسمت والا ہی ثابت و سلامت واپس آتا ہے۔ خاص لوگوں کے مقدمات کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ عام آدمی کے مقدمے کی سماعت مہینوں نہیں ہوتی اور اگر کئی ماہ بعد پیشی مل بھی گئی تو شنوائی نہیں ہوتی۔



پیشی دے دی جاتی، کبھی لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسا دیا جاتا ہے اور کبھی پیشی ملتوی کردی جاتی ہے اور پیشی در پیشی کا یہ سفاک اور مکروہ کھیل نسل در نسل چلتا ہے اور جب فائل بوسیدہ ہو جاتی ہے جج صاحب کو ورق گردانی میں پریشانی ہونے لگتی ہے تو فیصلہ سنا دیا جاتا ہے۔ یہ ہے ہمارا نظام عدل!۔ المیہ یہ بھی ہے کہ موجودہ نظام عدل فیصلہ سنانے کے بجائے فاصلے کا دل آزاد کھیل کھیلتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ بھی کہ مسند انصاف پر براجمان شخصیات فیصلہ سنانا چاہتی ہیں تو پھر فاصلہ درمیان میں کہاں سے آجاتا ہے۔ شاید یہ نیتوں کا کھیل ہے۔ اداروں کے سربراہ نظام کو درست کرنا تو چاہتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔ حالاں کہ وہ جانتے ہیں کہ عمل کے بغیر نیت لاحاصل ہے



، اگر جج صاحبان فیصلہ سنانے کا تہیہ کرلیں تو فاصلے خود بخود کٹ جائیں گے اور یہ فاصلے اسی وقت مٹ سکتے ہیں جب قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنادیا جائے مگر یہ ایک ایسا بھاری پتھر ہے جو زرداری سے بھی بھاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ قانون پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جاتا، ملکی وسائل اور قومی خزانے کو شِر مادر سمجھنے کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں، قانون کی نظر میں یہ سنگین جرم ہے، یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ اس جرم کے مرتکب معز اور محترم سمجھے جاتے ہیں حالاں کہ اختیارات سے تجاوز کا مقدمہ آرٹیکل 6 کے تحت درج ہونا چاہیے۔ شاید قانون میں کچھ ایسی سقم کچھ ایسی پیچیدگیاں ہیں جو آرٹیکل 6 کے ملزمان کو چھکا لگانے کی کھلی چھوٹ دیتی ہیں۔