لیکن خواجہ صاحب کو شاید یاد ہو کہ ریمنڈ ڈیوس لاہور میں پکڑا گیا تھا اور اس وقت بھی پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی جس نے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں پورا تعاون کیا۔ یہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مجبوری تھی کیوں کہ آئی ایس آئی بھی یہی چاہتی تھی جس نے آخری وقت تک ریمنڈ ڈیوس کی حفاظت کی کہ کہیں پاکستانیوں کے قاتل امریکی جاسوس کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ اس خدمت کے لیے ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا۔ اسی طرح جس عدالت میں ریمنڈ ڈیوس کا مقدمہ پیش ہوا اس کے جج کا کردار بھی قابل تحسین نہیں ہے اور واضح طور پر عدالت نے آزادانہ اور منصفانہ فیصلے کے بجائے دباؤ میں آ کر فیصلہ دیا۔ امریکی حکومت ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی درجہ دینے کے لیے پورا زور لگاتی رہی لیکن اس موقع پر پیپلز پارٹی کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی مخالفت میں اڑ گئے۔ حکومت پاکستان امریکا کی ایک اہم شخصیت کی رہائی کے بدلے کوئی سودے بازی بھی نہیں کرسکی۔
اتنا ہی کیا ہوتا کہ اس کے لیے پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی ہی کو رہا کروا لیا ہوتا ۔ پاکستانی حکمرانوں کے ایسے بزدلانہ رویے اور خواجہ آصف کے بقول بے غیرتی کے مظاہروں سے امریکی حکمرانوں کے حوصلے بڑھتے چلے گئے اور ایک امریکی اٹارنی جنرل کو یہ کہنے کی ہمت ہوئی کہ پاکستانی تو ڈالروں کے عوض اپنی ماں کو بھی فروخت کرسکتے ہیں ۔ اس بزدلی اور قومی وقار کو پامال کر کے امریکا کی خدمت کرنے کے باوجود آج وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ آج بھی ہمارے حکمران امریکا کو منہ توڑ جواب دینے سے گریز کرتے ہیں۔ خواجہ آصف نے خیال ظاہر کیا کہ امریکی جاسوس کی رہائی میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے یا بیرون ملک سمجھوتے پورے کرنے کے لیے کردار ادا کیا ہوگا۔ تاہم دیکھنا ہوگا کہ یہ مفاد انفرادی تھا یا ادارے کا ۔ پھر انہوں نے خود ہی فیصلہ دیا کہ میرا خیال نہیں کہ کسی ادارے کا مفاد ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے منسلک تھا تاہم ذاتی مفاد منسلک ہوسکتا ہے۔ اس طرح خواجہ آصف اداروں کو بچا گئے۔
لیکن یہ عجیب بات ہے کہ افراد نے اداروں کے علی الرغم کام کیا۔ گویا اگر آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا نے کوئی کردار ادا کیا تو وہ ان کا انفرادی فعل اور ذاتی مفاد تھا۔ یہ مفاد کیاتھا، اس پر بھی روشنی ڈالی جانی چاہیے لیکن واقعات شاہد ہیں کہ آئی ایس آئی کا پورا ادارہ ہی اپنے کام میں مصروف تھا۔ ریمنڈ ڈیوس کو عدالت میں لانے اور لے جانے کے لیے آئی ایس آئی کے اہلکار متعین تھے۔ خواجہ صاحب کہتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لیے حکومت پاکستان نے کہاں سے پیسے ادا کیے، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ حیرت ہے کہ ساڑھے چار سال سے حکومت میں رہنے کے باوجود وہ یہ بات معلوم نہیں کرسکے۔ انہوں نے زور دیا کہ حاکمیت پارلیمان کے پاس آنے تک ایسے واقعات کا سدباب نہیں کیا جاسکتا۔ تو یہ کام ان کی حکومت نے اب تک کیوں نہیں کرلیا ۔ خود ان کے معزول وزیر اعظم نواز شریف نے کبھی پارلیمان کو اہمیت نہیں دی۔