پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کی عبوری رپورٹ 2016ء

261

Zahoor-Awaanظہوراعوان
پی ڈبیلو سی کی جی ایس پی پلس 2016ء پر رپورٹ قسط وار پیش کی جارہی ہے
جی ایس پی پلس اور اس کے ساتھ مشروط 27 عالمی کنوینشنز پر عملدرآمد کے حوالے سے یورپی کمیشن کی معائنہ رپورٹ 2015ء سے ہر دو سال بعد جاری ہوا کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ورکرز کنفیڈریشن (PWC) نے بھی اپنی پہلی رپورٹ دو سال کی مدت پوری ہونے پر تحریر اور جاری کی تھی۔ البتہ سال 2016ء میں یہ طے پایا کہ جی ایس پی پلس کی رعایت کے تیسرے سال کے حوالے سے بھی ایک مختصر عبوری رپورٹ جاری کی جائے۔ جس میں سابقہ جاری کردہ رپورٹ کے اثرات کا جائزہ لیا جائے اور یورپی کمیشن کی جانب سے یورپی یونین کے لیے تیار اور پیش کردہ رپورٹ جس میں پاکستان کے بارے میں کل 27 کنونشنز پر عملدرآمد اور باالخصوص آئی ایل او کے آٹھ بنیادی لیبر معیارات پر عملدرآمد کے سلسلہ میں جو بحث کی گئی ہے اور جو نتائج نکالے گئے ہیں اس کا سرسری جائزہ لیا جائے اور اس کے اہم نکات کو رپورٹ کا حصہ بنایا جائے تا کہ تمام متعلقہ فریقین، ٹریڈ یونینز، فیڈریشنز اور دیگر وہ حلقے جو ان امور سے دلچسپی رکھتے ہوں اس کے مندرجات سے آگاہ ہوسکیں اور اس کا اندازہ ہوسکے، یورپی کمیشن جی ایس پی پلس کی شرائط پر عملدرآمد کے حوالے سے کس قدر سنجیدگی کے ساتھ نگرانی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے اور وہ کن معلومات پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی رپورٹ مرتب کرتا ہے۔



جہاں تک پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کی سابقہ رپورٹ کے اثرات کا تعلق ہے تو اس رپورٹ کے مندرجات کو جی ایس پی پلس سے دلچسپی رکھنے والے تمام حلقوں میں پذیرائی ملی اور اس کاوش کو سراہا گیا اور اس رپورٹ میں مزدوروں، ٹریڈ یونینز اور فیڈریشنز کے لیے کافی ایسا معلوماتی مواد موجود تھا جس سے ان کے شعور اور آگاہی میں اضافہ ہوا اور وہ اس سے بہتر استفادہ کرتے ہوئے جی ایس پی پلس کے حوالے سے مزدوروں کو بہتر مراعات دلوانے ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے اور ان کو ریلیف دلوانے کی کوشش میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
توقع تھی کہ جی ایس پی پلس کے حوالے سے رواں مالی سال میں پاکستان کی یورپی ممالک کو برآمدات سابقہ سال سے زیادہ ہونا چاہئیں تھیں اور ان سے ملک کو زیادہ زرمبادلہ کمانے کا موقع میسر تھا، لیکن بہت سی وجوہات کی بنا پر سال 2015-16ء میں صرف 20.802 بلین ڈالر مالیت کی برآمدات ہوسکیں، جب کہ گزشتہ مالی سال 2014-15ء میں ان کی مالیت 23,667 بلین ڈالر تھی اسی طرح ان کی مالیت میں 12 فی صد کمی واقع ہوئی، اگرچہ یہ عین ممکن ہے کہ بعض مصنوعات کی برآمدات پہلے سے کچھ بڑھی ہوں، لیکن مجموعی صورت حال کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہی اور حکومت اور متعلقہ حلقوں کو اس بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے اور ان وجوہات کو ترجیح بنیادوں پر دور کرنے کی ضرورت ہے جو برآمدات میں کمی کا سبب بنیں۔



اس عرصہ میں حکومت پنجاب کی جانب سے بچوں کی مشقت اور جبری مشقت کے حوالے سے حساسیت میں اضافہ ہوا اور اس کے خاتمے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی اور عملی کام کیا گیا ہے جو کہ یقیناًایک مثبت قدم اور قابل ستائش ہے۔
اس رپورٹ کی ترتیب اس طرح سے ہے کہ اس کے ابتدائی حصے میں پاکستان ورکرز کنفیڈریشن (PWC) اور یورپی کمیشن کی گزشتہ رپورٹ کا مختصراً جائزہ لیا گیا ہے۔ حصہ دوم میں قوانین محنت کے حوالے سے قومی اور صوبائی سطح پر قانونی معاملات پر حکومتی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ساتھ ہی انتظامی معاملات میں خصوصاً وفاقی اور صوبائی محکمہ محنت کی استعداد کارکردگی اور لیبر انسپکشن کی صورت حال کو موضوع بنایا گیا ہے۔ چند کیس اسٹڈیز کے ذریعے چیدہ چیدہ شعبوں میں مزدور کے حالات کار اور مزدور مفادات کے مخالف پالیسی کا خصوصی تجزیہ کیا گیا ہے۔ حصہ سوم میں ایک سروے کی مدد سے پنجاب کے برآمداتی شعبے کے حوالے سے تین شہروں فیصل آباد، لاہور اور سیالکوٹ میں مزدوروں کے بنیادی حق تنظیم سازی اور اجتماعی سودا کاری پر زیادہ توجہ دی گئی ہے، ساتھ ہی سوشل سیکورٹی اور ای او بی آئی میں مزدوروں کی رجسٹریشن اور لیبر انسپکشن کے معاملات کو سامنے لایا گیا ہے۔ سرکاری اداروں کی نجکاری اور اس کے مزدوروں اور ٹریڈ یونینز پر اثرات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے تا کہ یکطرفہ طور پر کی جانے والی نجکاری کے مضمرات سے آگاہی ہو سکے اور مزدوروں کے موقف کو بھی وزن دیا جائے۔



وقت اور وسائل کی کمی کے باعث دوسرے صوبوں کا اس رپورٹ میں تفصیلی احاطہ ممکن نہ ہوسکا۔ یہ رپورٹ نسبتاً مختصر ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اگلی دو سالہ رپورٹ زیادہ مفصل اور پاکستان بھر کے تمام مزدوروں کو درپیش مسائل اور مشکلات اور ٹریڈ یونینز تحریک کی صورت حال اور جی ایس پی پلس کے حوالے سے آٹھ بنیادی لیبر معیارات پر عملدرآمد اور اس کے مزدوروں پر اثرات کا بھرپور احاطہ کرے گی۔
اس رپورٹ کی تیاری اور اشاعت کے سلسلہ میں فریڈرک ایبرٹ اسٹفٹنگ (Friedrich Ebert Stifung) کے پاکستان آفس کا پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کو بھرپور عملی تعاون میسر رہا ہے۔ خصوصی طور پر ایف ای ایس (FES) کے پروگرام کوآرڈینیٹر اور ایڈوائزر عبدالقادر کی تکنیکی مہارت شامل رہی، ان کے عملی تعاون اور معاونت کے بغیر اس اہم کام کا پایہ تکمیل تک پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ رپورٹ کے مصنف محمد یعقوب ہیں اور شوکت علی چودھری ان کے معاون لکھاری ہیں۔ چودھری نسیم اقبال، ملک مختار اعوان اور سعد محمد نے ان کے ساتھ معاونت کرتے ہوئے رپورٹ کو حتمی شکل دی ہے۔