پرواز رحمانی
دو ہزار تیرہ مصر کی منتخب حکومت کو طاقت اور سازشوں سے کچل دینے کے بعد امریکا اور اس کے وفا داروں نے داعش یا اسلامک اسٹیٹ کے نام سے دہشت گردی کا ایک فرضی ڈھانچا کھڑا کیا تھا جس میں سی آئی اے اور موساد کا کردار بہت اہم تھا اور میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے دنیا کو بتایا جار ہا تھا کہ عراق اور شام م میں اسلامی خلافت کے قیام کے لیے ’اسلامی دہشت گردوں‘ نے ایک نیا فوجی نظام قائم کر لیا ہے جس سے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کو شدید خطرات لا حق ہو گئے ہیں ۔ طریقہ یہ تھا کہ شمالی افریقا اور کچھ دوسرے ملکوں کے بیکار و بیروز گار نوجوانوں کو عراق و شام میں یکجا کر کے انہیں ہتھیار تھما دیے جاتے ، ان کی ضروریات بھی پوری کی جاتیں ، ان سے مسلمانوں پر حملے کرائے جاتے ۔ علاوہ ازیں کچھ آزاد ملکوں کے جذباتی اور نادان نوجوانوں کو بھی بہلا پھسلا کر وہاں جانے پر آمادہ کیا جاتا اور یہ بے وقوف خلافت کے قیام کی کوشش میں وہاں جا کر فرضی ’جہادیوں‘ میں شامل ہو جاتے اور اسلام دشمنوں کے اشارے پر کام کرتے ۔ انہیں خلافت یا اسلامی ریاست کا کہیں پتا نہ چلتا ، نہ یہ معلوم ہوتا کہ ان کے گردو پیش کون لوگ ہیں ، وہ کس کے اشاروں پر کام کر رہے ہیں ۔یہ سلسلہ 4 سال سے لگا تار جاری ہے ۔ اس دوران زور دار پروپیگنڈے کے ذریعے بڑی دنیا کو باور کرا دیا گیا کہ داعش یا اسلامک اسٹیٹ فی الواقع کوئی چیز ہے اور اس سے دنیا کو خطرہ ہے ۔
اس فرضی تنظیم کے قیام کے بالکل آغا زمیں اس کے نام نہاد خلیفہ ابوبکر البغدادی کے ذریعے عراق کے بہت بڑے شہر موصل میں قیام خلافت کا اعلان بھی کرا دیا گیا ۔ ادھر عراقی حکومت اور اس کی فوج اس نقلی اسٹیٹ سے لگا تار بر سر پیکار رہی ۔ اب اس ڈرامے کی تازہ کڑی یہ ہے کہ10 جولائی کو موصل میں عراقی فوج کی فتح ظاہر کر دی گئی ۔ عراق کے ’’نادان‘‘ وزیر اعظم حیدر العبادی نے موصل میں بڑے فخر کے ساتھ اعلان کیا کہ یہ سفاکی اور دہشت گردی پر فتح ہے اور موصل میں اسلامک اسٹیٹ کی حکومت ختم ہو چکی ہے ۔ عبادی کے ذریعے فتح کا اعلان تو کرا دیا گیا لیکن اس طرح کی اس دوران ہزاروں بے گناہ داعش اور عراقی فوج دونوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ 9 لاکھ سے زیادہ لوگ ادھر ادھر بے یارو مدد گار پڑے ہیں یعنی ایک مسلم ملک کا ایک اور بڑا شہر تباہ ہو چکا ہے ۔ یہاں واضح رہنا چاہیے کہ عراق اور اس کے تیل پر کئی سال سے امریکا کا مکمل قبضہ ہے جو وہ پڑوسی اسرائیل کو بڑی مقدار میں مفت فراہم کرتا ہے۔ عبادی کی حکومت ایک کٹھ پتلی ہے۔ امریکا کو اس تازہ ڈرامے کی ضرورت کیوں پیش آئی ، یہ دیکھنا ہو گا ۔ جو دنیا داعش کو حقیقی اسلامی جہادی تنظیم سمجھتی ہے ، اس میں مسلمان اور ان کے بعض سادہ لوح قائدین بھی بستے ہیں ۔ یہ عراق کا العبادی پتا نہیں کیا ہے کون ہے؟
اللہ کے رسول ﷺ کی اس پیش گوئی کے بارے میں کہ ’’ ایک وقت آئے گا جب دنیا کی قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی…‘‘ علمائے کرام اور ماہرین شریعت ہی کوئی رائے قائم کر سکیں گے کہ آیا آج کے حالات پر اس کا اطلاق ہوتا ہے؟ لیکن یہ بہر حال ہر فرد امت محسوس کرتا ہے کہ حالات آزمائشی ہیں ، مقامی سطح سے ملکی سطح اور عالمی سطح تک ۔ معاندین کی ایک کوشش یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو ان حالات کی شدت زیادہ سے زیادہ محسوس کرائی جائے اور انہیں خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھا جائے ۔ داعش یا نام نہاد اسلامک اسٹیٹ کا یہ کھیل امت کے خلاف ایک گہری اور ہمہ گیر سازش ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اس کی خبروں پر بہت احتیاط کے ساتھ غور کرنا چاہیے ۔ جہاں تک عام صورتحال کا تعلق ہے ، سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ افراد امت اپنے ایمان و عقیدے پر سختی کے ساتھ قائم رہیں ، دعوت اسلامی کا فریضہ فرداً فرداً اور اجتماعی طور پر ادا کرتے رہیں ، اسلام اور امت اسلام کے خلاف جو پروپیگنڈا کیا جاتا ہے ، اس کا توڑا پنے طور پر کریں ۔ حتیٰ الامکان خود کو مزاحمتی طور پر بھی تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیدھے سادھے افراد امت کے اندر حوصلہ و خود اعتمادی پیدا کرنا پڑھے لکھے افراد کی ذمے داری ہے۔
خودی کی موت ہے حالات نو سے بے خبری