او آئی سی روہنگیا مسلمانوں پر مظالم بند کرا سکتی ہے

283

ڈاکٹر عظیم ابراہیم
میانمر میں روہنگیا اقلیت کے خلاف انسانیت سوز سلوک کا سلسلہ جاری ہے اور یہ روز بروز بد تر ہو تاجارہا ہے۔ہمیں اب یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ اقوام متحدہ اپنے 1948ء کے نسل کشی سے متعلق کنونشن کے اصولوں کے نفاذ میں بالکل ناکام رہا ہے۔
اسی سال اقوام متحدہ کی انسانی رابطہ کار رینیٹا لوک ڈیسالین کے دفتر کی افشا ہونے والی دستاویز سے ایک افسوس ناک تصویر سامنے آئی ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایک غیر فعال کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے اقتصادی ترقی کے مقاصد کو انسانی حقوق پر ترجیح دی۔ ان کے اپنے عملے کے ارکان نےان پر یہ الزام عاید کیا تھا کہ انہوں نے میانمر کی سول حکومت اور فوجی اشرافیہ سے بڑے اچھے تعلقات استوار کر لیے تھے جبکہ روہنگیا اور دوسری اقلیتوں کے خلاف مظالم کو اپنے ایجنڈے میں نظر انداز کردیا تھا۔



یہ توقع کی جارہی تھی کہ آنگ سان سوچی کی جدوجہد کے نتیجے میں جمہوریت کی جو نئی صبح طلوع ہوئی ہے ، وہ جلد پھل پھول دینا شروع ہوجائے گی لیکن اقوام متحدہ بالعموم اور لوک ڈیسالین بالخصوص خاموش تماشائی بنے سیکڑوں ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی ہوتے ہوئے دیکھتے رہے۔ دیہات کے دیہات ملیامیٹ کر دیے گئے اور ہزاروں افرادکشتیوں کے دشوارگزار بحری سفر کے ذریعے بنگلا دیش اور ملائشیا کی جانب جانے پر مجبور ہوگئے لیکن انھیں وہاں بھی ایسے ہی حالات کا سامنا ہوا ہے جیسے وہ میانمر میں چھوڑ کر گئے تھے۔اقوام متحدہ نے میانمر سے متعلق بظاہر سابق امریکی صدر بارک اوباما کی انتظا میہ کے تزویراتی ضبط وتحمل کا نظریہ اپنا لیا تھا جس کا سفارتی مطلب کچھ بھی نہ کرنا ہے۔
حال ہی میں رینیٹا لوک ڈیسالین کو میانمر مشن سے ان کی ذمے داریوں سے ہٹانے کا ا علان کیا گیا ہے۔ اس پر کئی افراد نے سکھ کا سانس لیا ہے لیکن ان کی جگہ لینے والے نئے رابطہ کار کیا اس ملک میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر کوئی توجہ مرکوز کریں گے؟



امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی بین الاقوامی تنظیم روہنگیا مسلمانوں سے متعلق اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے حالانکہ ان کو زیادہ بہتر طریقے سے پورا کیا جاسکتا تھا۔
روہنگیا کی صورت حال کا موضوع اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کے اجلاسوں کے ایجنڈے میں بھی سرفہرست رہا ہے۔ او آئی سی نے اسی سال ملائشیا میں روہنگیا کی صورت حال پر غور کے لیے ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا تھا۔
او آئی سی کے جہاں تک تنازعات کے حل سے متعلق ریکارڈ کا تعلق ہے تو یہ تنظیم تنازعات کے حل کے معاملے میں بالکل ناکام ثابت ہوئی ہے کیونکہ اس کے پاس ایسے ذرائع نہیں ہیں جن کو وہ فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے بروئے کار لا سکے ۔او آئی سی کے اجلاسوں میں قرار دادیں منظور کی جاتی ہیں لیکن مسلم دنیا سے باہر ان کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا ہے۔عام طور پریہ قرار دادیں مقامی آبادی کی دل جوئی اور انہیں مطمئن کرنے کے لیے منظور کی جاتی ہیں۔



اس سب کے باوجود او آئی سی اس معاملے میں مزید موثر ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ دنیا کی دوسری بڑی بین الاقوامی تنظیم ہے۔اس کے 57 رکن ممالک ہیں جو کہ 4 بر اعظموں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ڈاکٹر یوسف بن احمد العثیمین کی فعال شخصیت اس تنظیم کی سیکرٹری جنرل ہے۔ ان کی قیادت میں یہ تنظیم روہنگیا کے مسئلے میں مداخلت کرسکتی ہے اور وہ کام کرسکتی ہے جو اقوام متحدہ نہیں کرسکی ہے۔ ہمارے خیال میں او آئی سی درج ذیل بعض سادہ اقدامات کر سکتی ہے۔
۱: او آئی سی اقوام متحدہ اور میانمر کے حکام کے ساتھ مل کر ان الزامات کی تحقیقات کر سکتی ہے کہ بعض جنگجو گروپ روہنگیا کی جدوجہد کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کرر ہے ہیں۔ ان الزامات میں اگرچہ کوئی حقیقت نہیں ہے لیکن میانمر کے حکام روہنگیا کو اجتماعی سزا دینے کے لیے ایسے الزامات کو اپنے اقدامات کے جواز کے طور پر پیش کررہے ہیں اور وہ عالمی برادری کو بھی اس طرح کی فریب کاری کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنی آنکھیں موند لیں۔



دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں داعش اپنے علاقوں سے محروم ہورہی ہے اور وہ اب نئے علاقوں کی تلاش میں ہے جہاں وہ اپنے زہریلے نظریے کو پھیلا سکے۔۲: روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کا ایک فرقہ وارانہ پہلو بھی ہے کیونکہ بعض عناصر بدھ تعلیمات کی غلط تشریح کر کے تشدد کو تحریک دے رہے ہیں۔ او آئی سی ایک مذہبی تنظیم ہے اور وہ بین المذاہب مکالمے کے ذریعے تنازعات کے حل کے لیے از سرنو کوششیں کر سکتی ہے۔او آئی سی مسلمانوں کی عالمی آواز ہونے کی نمائندہ ہے۔ اس کو ایسی عالمی مسلم شخصیات کو قائدانہ کردار کے لیے آگے لانا چاہیے جو اس ملک کے بدھ مت ماننے والے رہنماؤں کے لیے بھی قابل قبول ہوں گے۔
۳: او آئی سی میانمر کے ہمسایہ ممالک پر روہنگیا مسلمانوں کے بوجھ کو بھی کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے تاہم بنگلا دیش کی حکومت کوشش کررہی ہے کہ روہنگیا مستقل طور پر اس ملک میں نہ رہیں کیونکہ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ جانیں بچا کر آنے والے ہزاروں روہنگیاؤں کو اپنے ہاں مستقل طور پر پناہ دے سکیں۔



۴: او آئی سی بنگلا دیش سمیت میانمر کے پڑوسی ممالک میں روہنگیا پناہ گزینوں کو بنیادی ضروریات مہیا کرنے کے لیے ایک مربوط عالمی مہم چلا سکتی ہے۔ او آئی سی کی اپنے فنڈنگ کے اصولوں کے حوالے سے کوئی خوش نما تاریخ نہیں ہے لیکن وہ اس معاملے میں کامیاب ہوسکتی ہے جہاں اقوام متحدہ ناکام ہوچکی ہے۔ رو ہنگیا کی صورت حال اس تنظیم کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ خود اپنی غلطیوں کا ازالہ کر سکتی ہے اور وہ مذکورہ بالا سادہ اقدامات کے ساتھ اس کا آغاز کرسکتی ہے۔اس کے ہزاروں لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ہمیں توقع ہے کہ وہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائے گی۔