کیاامریکاٹوٹ جائے گا؟

420

سمیع اللہ ملک
اگرامریکاکی جارحیت پر ایک نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا جارح آج تک 38 ممالک میں اپنے مفادات کے حصول کی خاطر اپنی افواج کے ذریعے حملہ آورہوچکاہے لیکن ہرملک سے سوائے ذلت و رسوائی اور شکست کے اسے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس بدنصیبی کے ساتھ یہ بھی امریکی تاریخ کا سیاہ حصہ ہے کہ یہ ہرملک میں شرمناک شکست کے بعداپنی ناکامی کا ملبہ پڑوسی ممالک پرڈال کراپنی بدنامی مول لیتا رہا ہے۔ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں امریکی عوام کے سامنے بڑے جارحانہ اندازمیں افغانستان میں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے فوری طورپراپنی افواج واپس بلانے کاعندیہ دیتے رہے لیکن ہمیشہ کی طرح ٹرمپ بھی منتخب ہوکراپنی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں مجبورہوچکے ہیں۔ اگر ٹرمپ کے حالیہ خطاب کو دیکھا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ 16 برس گزر جانے کے بعد بھی امریکا کی طویل ترین جنگ، یعنی افغانستان کی لڑائی میں اپنی شکست اورناکامی کاملبہ پاکستان پرڈال کراپنے عوام کومطمئن کرنے کے لیے ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کررہاہے۔



ٹرمپ کا گزشتہ چندماہ سے افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے ٹائم ٹیبل کی پالیسی کو ترک کرنے کا صاف مطلب یہی ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے واپس جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ افغانستان کے حوالے سے امریکا کی نئی پالیسی کو منظر عام پر آنے میں بہت تاخیر ہوئی، لیکن حیلے بہانوں کے بعد سابق امریکی صدور کی طرح ٹرمپ بھی اسٹیبلشمنٹ کی زبان میں بولتے نظرآرہے ہیں۔ اگرچہ اپنے خطاب میں ٹرمپ نے افغانستان میں ممکنہ اضافی امریکی فوجیوں کی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں کہا لیکن لگتا ہے کہ وہ اپنے جرنیلوں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے افغانستان میں مزید 3 ہزار 800 اہلکار فوجی تربیت دینے کے ماہرین اور مشیرکے نام پر بھیجنے پررضامند ہو گئے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ نے طالبان کے خلاف افغان فوج کے سب سے موثر ہتھیاریعنی امریکا کی فضائی مددکے حوالے سے بھی کسی قسم کی لب کشائی نہیں کی لیکن ننگرہارمیں ’بموں کی ماں‘ گراکر اس نے یہ پیغام چندماہ پہلے دیا تھا تاہم حسبِ منشااس کے نتائج موصول نہ ہوسکے۔ بعد ازاں پاکستان اورافغان طالبان کے خلاف کاروائیوں کے نام پر سازش بنائی گئی جسے پاکستانی افواج کے بروقت ’خیبرآپریشن 4‘کی کامیابی نے بری طرح ناکام بنا دیا اور امریکا کے سارے منصوبے بری طرح ناکامی کا شکار ہوئے۔ جس کی بنا پر امریکا اب تلملا رہا ہے۔



جہاں تک افغانستان کی اندرونی صورتِ حال کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کا تقریباً نصف حصہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ ماسوائے افغان فوج کے ایلیٹ دستوں کے باقی فوج کی حالت بھی زیادہ اچھی نہیں ہے اوران حالات میں امریکی فوج کوہروقت یہی دھڑکالگارہتاہے کہ طالبان کاگھیراؤدن بدن تنگ ہونے کی صورت میں خطرناک تباہی ان کامقدربن جائے گی جس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان جوبڑی کامیابی کے ساتھ ان تمام دہشت گردوں سے اپنے تمام علاقوں کو واگزار کرا چکا ہے، اپنی ناکامی کا ملبہ اس پر ڈال کر ایک طرف تو پاکستان کی کامیابی کواقوام عالم کے سامنے منفی انداز میںپیش کیا جائے اور دوسری جانب پاکستان سے ڈومورکامطالبہ کرنے کا کارڈ استعمال کیاجائے لیکن صدافسوس کہ اس مرتبہ پھر وہ اپنی اس سازش میں بری طرح ناکام ہوگیاہے۔



ٹرمپ نے اپنے خطاب میں حسب دستور فتح جیسے الفاظ کا سہارا لیتے ہوئے اس بات پر اصرار کیا کہ افغانستان میں جاری جنگ کا مقصد افغانستان کی تعمیر نہیں بلکہ دہشت گردوں کو ختم کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ کے ان الفاظ کا مقصد اپنے حامیوں کو یقین دلانا تھا کہ ان کی طرح وہ خود بھی دیگر ممالک میں فوجی دخل اندازی کے خلاف ہیں، لیکن وہ مجبور ہیں۔ اس موقع پر پاکستان کے حوالے سے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان دہشت گردوں کو پناہ دیتا رہا تو اسے بہت نقصان ہوگا۔ ٹرمپ کے بقول یہ صورتِ حال تبدیل ہو کر رہے گی اور فوری تبدیل ہو گی لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹرمپ پاکستان پر کس قدر دبا ؤڈال سکتا ہے؟ جبکہ چین اورروس بھی پاکستان کی حمایت میںکھل کرمیدان میں اترآئے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کو امریکا کی جانب سے ملنے والی سیکورٹی امداد کا تعلق ہے تو اس میں کچھ تو پہلے ہی معطل کی جا چکی ہے اورجنرل قمرباجوہ نے امریکی سفیرکوملاقات میں واضح کردیا ہے کہ انہیں مددکی ضرورت نہیں بلکہ اس جنگ میں پاکستان کی قربانیوںکوتسلیم کیا جائے۔ اب قومی سلامتی کے اجلاس میں امریکاکوایک واضح پیغام دیاگیاہے کہ امریکااپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے افغانستان میں بیٹھے ان دہشت گردوں کاصفایاکرے جوبھارتی ’را‘کی مددسے پاکستان میں حملہ آورہوتے ہیں۔ ٹرمپ کو معلوم ہے کہ جلد یا بدیر، وہ جب بھی طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہیں گے، پاکستان کا کردار اہم ہوگا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ کی جانب سے امریکا اور بھارت کے تعلقات میں اضافے اور افغانستان کی معاشی ترقی میں بھارت کے ممکنہ کردار پر زور دینے کا مقصد نہ صرف خطے کی وسیع تر علاقائی پالیسی کو قدرے تلپٹ کرنا تھا بلکہ اس کا مقصد پاکستان میں بھی خطرے کی گھنٹی بجانا تھا۔



پاکستان کے علاوہ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں افغان حکام کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ گروہی مفادات اور بدعنوانی سے عبارت افغان حکومت جمہوری اقدار کی تصویر تو ہونے سے رہی۔ ٹرمپ کے بقول افغان کی حکومت کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں، یہ امریکا کا کام نہیں لیکن ایک ہی سانس میں ٹرمپ نے یہ بھی کہہ دیا کہ امریکاافغان حکومت کے نام ایسے چیک نہیں لکھتا رہے گا جن پر وہ جتنی رقم چاہے لکھ لے، ہماری مدد لامحدود نہیں ہے اور امریکا توقع کرتا ہے کہ افغانستان میں حقیقی اصلاحات، حقیقی ترقی اور حقیقی نتائج حاصل کیے جائیں۔ ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی افغان پالیسی کے خدوخال کیا ہوں گے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پالیسی کی تفصیلات کیا ہیں؟ٹرمپ کی افغان پالیسی کے خدوخال کیا ہوں گے؟



ہمارا خیال ہے کہ یہ تفصیلات وقت آنے پر ہی معلوم ہوں گی مگر جہاں تک آج کا تعلق ہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ مقابلہ ٹرمپ کے تقریری انداز اور افغانستان کے اصل حقائق کے درمیان تھا، جس میں زمینی حقائق کو فتح حاصل ہوئی ہے اوراس مرتبہ پاکستان نے امریکاکے تمام الزامات کویکسر مسترد کرد یا ہے اور امریکا افغانستان میں مکمل ناکام ہو چکا ہے۔ ٹرمپ جو الفاظ چاہیں، استعمال کریں، لگتا یہی ہے کہ وہ بھی وہی راستہ اپنائیں گے جو ان کے پیشرو اختیار کر چکے ہیں۔ ٹرمپ کا اصرار ہے کہ وہ کوئی عذر تسلیم نہیں کریں گے اور مطلوبہ نتائج حاصل کر کے رہیں گے، گویاآئندہ آگ وخون کے آخری کھیل کے بعدامریکااپنے زخموں کوچاٹ کرواپسی کی راہ طلب کرے گاجبکہ امریکامیں تمام سیاسی تجزیہ نگار ٹرمپ کومشورہ دے رہے ہیں کہ اس جنگ میں شکست تسلیم کرتے ہوئے فوری طورپراپنی جان چھڑائی جائے اوراپنی ڈوبتی ہوئی معیشت کوبچانے کے لیے ضروری اقدامات کی اشدضرورت ہے وگرنہ پچھلے چندبرسوں سے امریکاکے ٹوٹنے کے جوخدشات سراٹھارہے ہیں ان کومزیدتقویت ملے گی۔