میئر ناگا ساکی کی خدمت میں چند تجاویز

225

ملک الطاف حسین
جاپان کے جنوبی شہر ناگا ساکی پر امریکا کی طرف سے ایٹم بم گرائے جانے کے واقعے کو 72 برس مکمل ہوچکے، گزشتہ دنوں مقامی وقت کے مطابق 11 بج کر 2 منٹ پر ہزاروں افراد نے ایک منٹ تک خاموشی اختیار کرتے ہوئے اس شرمناک، ظالمانہ اور افسوسناک حملے کی یاد تازہ کی اور ہلاک شدگان کو خراج عقیدت پیش کیا۔ 9 اگست 1945ء کو اس شہر پر ایٹم بم گرایا گیا تھا جس کے نتیجے میں 74,000 شہری مارے گئے تھے۔ اس واقعے سے 3 روز قبل جاپان کے ایک دوسرے شہر ہیروشیما پر امریکا نے تاریخ کا پہلا ایٹم بم گرایا تھا، 6 اگست کو بوکسکار نامی طیارے سے پائلٹ چارلس نے لٹل بوائے نامی ایٹم بم گرایا جس سے ایک لاکھ چالیس ہزار لوگ لمحہ بھر کے اندر پگھل کر ہلاک ہوگئے۔ مجموعی طور پر 2 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ 23 سے 28 ہزار تک جاپانی امدادی کارکن بھی ہلاک ہوگئے جب کہ اس سے دگنی تعداد تابکاری اثرات سے متاثر ہوئی۔



ٹرومین سے ٹرمپ تک کسی بھی امریکی صدر نے جاپان پر ایٹم بم گرانے پر معافی نہیں مانگی۔ 27 مئی 2016ء کو جب صدر اوباما نے جاپان کا دورہ کیا تو وہ ہیروشیما میں وحشیانہ حملے کی یادگار پر بھی تشریف لے گئے، وہاں جا کر صدر اوباما نے ایٹمی حملے میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک لمحہ سر ضرور جھکایا اور بعدازاں اپنے خطاب میں ایٹمی حملے پر افسوس کا اظہار بھی کیا تاہم انہوں نے نہ تو امریکا کی غلطی کا اعتراف کیا اور نہ ہی جاپان کے عوام سے معافی مانگی، جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ 72 برس گزر جانے کے باوجود امریکا کو ایٹم بم گرانے پر قطعاً کوئی شرمندگی یا پشیمانی نہیں۔ اوباما کے دورے کے دوران ہی جاپان کے وزیر خارجہ فومیو کیشیدہ کا بیان آیا تھا کہ ’’جاپان کا شروع سے موقف یہ رہا ہے کہ امریکا کی ایٹمی بمباری انسانی حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے‘‘۔



بہرحال خبروں کے مطابق 9 اگست کو ایک تقریب ہوئی جس میں جاپان کے وزیراعظم جناب شیزو آبے اور ناگا ساکی کے میئر جناب میشا تاؤ نے شرکت کی۔ میئر میشا تاؤ نے جوہری حملے کے 72 سال مکمل ہونے کے بعد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایٹمی طاقت کے حامل ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ عالمی امن کو یقینی بنانے کے لیے جوہری ہتھیار تلف کردیں‘ بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر صورت حال سنگین ہوتی جارہی ہے اور ممکنہ طور پر مستقبل قریب میں ایٹمی ہتھیاروں کے دوبارہ استعمال کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے جب کہ جوہری جنگ کا خطرہ اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتا کہ جب تک ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک یہ دعویٰ کرتے رہیں گے کہ یہ ٹیکنالوجی ان کی قومی سلامتی کے لیے لازمی ہے، یاد رہے کہ شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے بعد ناگا ساکی کے میئر جناب میشا تاؤ کی مذکورہ گفتگو حقائق اور خطرات کے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے۔



میئر میشا تاؤ کے موقف اور مطالبات کی بھی بھرپور تائید کرتے ہیں کیوں کہ پاکستان کے عوام اور حکومت کے درمیان اس بات پر کوئی اختلاف یا دو رائے نہیں کہ دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کیا جائے بلاشبہ عالمی امن کو جوہری ہتھیاروں سے شدید خطرہ لاحق ہے‘ اس کے لیے لازم ہے کہ کسی بھی ملک کو محدود پیمانے پر بھی ایٹمی ہتھیار رکھنے کی اجازت نہ دی جائے گو کہ پاکستان خود ایک ایٹمی طاقت ہے تاہم وہ ایسے کسی بھی بین الاقوامی معائدے پر دستخط کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا ہے کہ جس میں ایٹمی ہتھیاروں پر چند ممالک کی اجارہ داری ختم کرکے بلا امتیاز امریکا سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کے پاس ایٹمی ہتھیار نہ ہونے کی ضمانت دی جائے۔ میئر میشا تاؤ کو یقیناًیہ اندازہ ہوگا کہ ایسا کرنا کوئی آسان کام نہیں جن بڑے ممالک نے اپنے اسلحہ خانوں کی ایٹمی ہتھیاروں سے بھر رکھا ہے وہ جارحانہ عزائم رکھتے ہیں۔



مقبوضہ کشمیر، مقبوضہ بیت المقدس و فلسطین، مقبوضہ عراق، شام، لیبیا، یمن اور افغانستان میں قبضے، شرارت اور مداخلت سمیت جو فوجی کارروائیاں ہورہی ہیں ان سب میں ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک براہِ راست ملوث ہیں کیوں کہ ایٹمی ہتھیاروں کی حامل جارح قوتیں یہ سمجھتی ہیں کہ اگر انہوں نے اپنے ایٹمی ہتھیار تلف کردیے تو عالمی سطح پر ان کی لوٹ مار، بھتا خوری اور چودھراہٹ ختم ہوجائے گی۔ لہٰذا اس تمام صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے ایک پُرامن اور منظم تحریک چلائی جائے جس کی قیادت ’’جاپان‘‘ کو کرنا ہوگی کیوں کہ عالمی برادری کو قائل کرنے کے لیے متاثرہ فریق کا دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کی مہم کا وکیل یا ترجمان بننا ضروری ہے جس کے لیے ناگا ساکی کے میئر جناب میشا تاؤ کی شخصیت سب سے زیادہ موزوں اور قابل بھروسا ہے۔ اگر جاپان کے عوام، حکومت اور میئر میشا تاؤ ہماری درج بالا گفتگو سے اتفاق کرلیں تو اُس کے بعد مذکورہ تحریک کے لیے ہم ان کی خدمت میں چند تجاویز پیش کرنا چاہیں گے۔



ہمارے خیال میں سب سے پہلے اس حوالے سے یہ ہونا چاہیے کہ ہر سال جب جاپان پر امریکی ایٹمی حملے کی یاد کا دن آئے تو ٹھیک 6 اگست کو اُس وقت پر کہ جب ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا گیا تھا امریکا کے ساتھ ’’علامتی سفارتی بائیکاٹ‘‘ کا اعلان کردیا جائے، حملے کو جتنے برس ہوچکے ہوں اتنے ہی گھنٹے بائیکاٹ جاری رکھا جائے مثلاً6 اگست 2018ء کو ایٹمی حملے کو 73 برس مکمل ہوجائیں گے تو اس طرح سے 6 اگست کا دن اور حملے کا وقت شروع ہونے کے ساتھ ہی 73 گھنٹوں کے لیے امریکا کے ساتھ سفارتی بائیکاٹ شروع کردیا جائے۔ اِن مجوزہ 73 گھنٹوں میں جاپان میں امریکا کا سفارتخانہ مکمل طور پر بند جب کہ اسی طرح سے امریکا میں جاپان کا سفارتخانہ بھی بند رہے گا۔ بائیکاٹ کے اِن گھنٹوں میں جاپان کا کوئی بزنس مین کسی امریکی سے ملاقات نہیں کرے گا، سرکاری اور سفارتی سطح پر تمام رابطے منقطع رہیں گے، جاپان سے امریکا کے لیے یا امریکا سے جاپان کے لیے تمام پروازیں بند رہیں گی، جاپان میں موجود کسی بھی امریکی شہری کو مجوزہ گھنٹوں کے درمیان کسی سیاحتی مقام پر جانے یا تجارتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ جاپان میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر نقل و حرکت محدود کردی جائے گی جب کہ سختی سے اس بات کا بھی فیصلہ کیا جائے گا کہ علامتی بائیکاٹ کے مجوزہ وقت کے دوران جاپان کی سرزمین پر کسی بھی جگہ امریکی جھنڈا نہیں لہرائے گا۔



مزید برآں اس تحریک کے دو واضع مطالبے یا اہداف ہوں گے، اول یہ کہ امریکا ہیروشیما اور ناگا ساکی پر کیے گئے ایٹمی حملوں پر جاپان کے عوام سے معافی مانگے اور دوم یہ کہ دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں مکمل طور پر پاک کرنے تک یہ تحریک جاری رہے گی، تاہم اگر تحریک کے آغاز پر ہی امریکا جاپان کے عوام سے معافی مانگنے کے لیے تیار ہوجائے تو مذکورہ تحریک کے چند نکات کو مشورے کے ساتھ واپس لے کر بقیہ فیصلوں کے ساتھ تحریک جاری رہے تاوقتکہ ایٹمی ہتھیاروں کے حامل ممالک ایٹمی ہتھیاروں کے مکمل خاتمے کا معاہدہ کرنے پر تیار نہ ہوجائیں۔ تحریک کو کامیاب کرانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ عالمی برادری کو بھی کسی نہ کسی طور پر تحریک کا حصہ بنایا جائے جس کے لیے میئر میشا تاؤ کی قیادت میں آزاد ممالک کے دارالحکومتوں کا دورہ کرکے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر دیگر اقوام کو بھی آمادہ کیا جائے کہ وہ ’’امریکا کے ساتھ علامتی سفارتی بائیکاٹ‘‘ کے 73 گھنٹوں میں ضرور شامل ہوں۔



کم از کم 10 گھنٹے اور زیادہ سے زیادہ جہاں تک کوئی چاہے، دنیا کے 6 ارب انسانوں کو ممکنہ ایٹمی حملوں سے بچانے کے لیے عالمی برادری کا کردار اور تحریک میں شرکت ضروری ہے۔ علاوہ ازیں علامتی بائیکاٹ کی یہ تحریک 100 گھنٹوں تک جاسکتی ہے جو ہر سال ناگا ساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے کے دن اور وقت پر شروع ہوا کرے گی، اسی طرح سے آگے چل کر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار نہ ہونے اور جاپان کے عوام سے معافی نہ مانگنے پر امریکا کے ساتھ دیں گے، ا‘ن کے ساتھ بھی ہر سال چند گھنٹوں کا علامتی بائیکاٹ کیا جاسکتا ہے جس کا وقت اور دورانیہ امریکا کے ساتھ علامتی بائیکاٹ کے دن پر ہی شروع ہوگا۔



ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ناگا ساکی کے میئر اور جاپان کے عوام ہماری درج بالا تجاویز پر سنجیدگی سے غور کریں تو نہ صرف دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کیا جاسکتا ہے بلکہ عالمی امن کو بھی مضبوط اور دیرپا بنیادوں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے جب کہ میئر میشا تاؤ اور جاپانی وزیراعظم شیزو آبے اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ عالمی برادری کی اکثریت دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک دیکھنا چاہتی ہے ویسے بھی ایٹمی حملوں میں مرنے والوں کی قربانی کو ہمیشہ کی یادگار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں کو رہتی دنیا تک ایٹمی ہتھیاروں کے وحشیانہ اور بے رحمانہ حملوں سے بچانے کے لیے مستقل انتظام کیا جائے جو سوائے اس کے کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا کہ ایٹمی ہتھیاروں کے مکمل خاتمے تک ایک بھرپور اور منظم تحریک چلائی جائے۔
دنیا کے مالک اور خالق ایک اللہ سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہم سب کی مدد و رہنمائی فرمائے۔ آمین۔