بہت سے فیصلوں میں اب طرف داری بھی ہوتی ہے

240

baba-alifشاعر نے کہا تھا
ہم کو شاہوں سے عدالت کی توقع تو نہیں تھی
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلادیتے ہیں
شاہوں سے درکنار اب تو عدالتوں سے بھی عدالت کی توقع نہیں۔ خود وکلا احتجاج کر رہے ہیں جسے وکلا گردی کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سرکردگی میں فل بنچ نے ملتان میں عدالت عالیہ کے سینئر جج کے ساتھ بدتمیزی کرنے والے ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کے صدر مشیر زمان کے خلاف توہین عدالت کے کیس میں بلا ضمانت گرفتاری اور اسے منگل کو لاہور میں پیش کیے جانے کا حکم دیا۔ بہرحال فاضل عدالت کا حکم سنتے ہی عدالت کے احاطے میں موجود وکلا مشتعل ہوگئے۔ انہوں نے عدالت عالیہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی، پتھراؤ شروع کردیا۔ ہائی کورٹ کا مرکزی اندرونی دروازہ توڑ دیا۔ واک تھرو گیٹ اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ چیف جسٹس کے چیمبر پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ پولیس اور رینجرز نے انہیں روکا تو وکلا کی اچھی خاصی تعداد ہائی کورٹ سے باہر نکل آئی۔ مال روڈ پر ٹریفک بلاک کردیا۔ پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے علاوہ پانی کی زبردست بوچھاڑ کا بھی استعمال کیا۔ اس سے قبل سماعت پر بھی وکلا کے ایک گروہ نے چیف جسٹس کی عدالت اور چیمبر میں داخل ہوکر ججوں کو گالیاں دیں اور نعرے لگائے۔



ملتان ہائی کورٹ بار کے صدر مشیرزمان نے اس سے پہلے طلب کیے جانے پر پیش ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں نے بھی نیب کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا ہے۔ اسحاق ڈار نے بھی نیب کے سامنے پیش ہونے سے متعلق اسی قسم کا عندیہ دیا ہے۔ عمران خان بھی عدالتوں کی طلبی کو پرکاہ کے برابر حیثیت نہیں دیتے۔ اب عدالتوں میں پیش ہونا بھی صوابدیدی اختیار ہوتا جارہا ہے۔ عدالتوں کو بے توقیر کرنے کا عمل ایک عرصے سے جاری ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو آج بھی ’’عدالتی قتل‘‘ کہا جاتا ہے اور کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔ بے نظیر بھٹو اس زمانے میں عدالتوں کو کینگرو کورٹس کہتی تھیں۔ 1997میں مسلم لیگ ن نے باقاعدہ عدالت عظمیٰ پر حملہ کیا۔ اس مرتبہ اسلام آباد سے لاہور تک جی ٹی روڈ کے سفر میں نواز شریف ان پانچ ججوں کو بے نقط سناتے رہے جنہوں نے انہیں جھوٹ بولنے پر نا اہل قرار دے دیا تھا۔ وہ سارے راستے عدالتی فیصلے کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے رہے۔



یہ ایک تلخ حقیقت ہے ہماری عدلیہ کے فیصلے متنازع رہے ہیں۔ فوجی حکومتوں کے مقابل ہماری عدلیہ نے کبھی عزیمت کا راستہ اختیار نہیں۔ جسٹس محمد منیر نے غلام محمد ہو یا اسکندر مرزا اور ایوب خان کسی کے بھی ماورائے قانون وآئین اقدامات کی ہلکی سی مزاحمت بھی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ حاجی سیف اللہ کیس میں جونیجو اسمبلی کو کس بنا پر بحال نہیں کیا گیا سب جانتے ہیں کہ مرزا اسلم بیگ ایسا نہیں چاہتے تھے۔ بھٹو کس دباؤ پر دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے اب کوئی راز نہیں۔ جنرل ضیاالحق کے پی سی اوکی ججوں نے جس آسانی سے تو ثیق کی تھی اسے چیف جسٹس اے آر کار نیلیس نے عدلیہ کی عصمت دری (rape) قرار دیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے 12اکتوبر کے اقدام کو ہماری عدلیہ نے نا صرف یہ کہ حق بجانب قرار دیا تھا بلکہ ستم یہ ڈھایا کہ حکومت کی کسی درخواست کے بغیر اسے آئین میں ترمیم کرنے کا حق بھی دے دیا۔ جون 2001 میں سابق صدر رفیق تارڑ کو ایک فوجی حکم کے تحت ان کے عہدے سے الگ کیا گیا تو اس وقت کے چیف جسٹس نے اس اقدام کے آئینی جواز یا عدم جواز کا لحاظ کیے بغیر جنرل پرویز مشرف کو نئے صدر کا حلف دلوادیا۔



عدلیہ کی بے توقیری کا یہ ایک المناک باب ہے۔ پرویز مشرف کے ایل ایف او کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا تو عدالت نے یہ کہہ کر جان چھڑالی کہ اس کی آئینی حیثیت کا تعین مناسب وقت پر مناسب فورم پر کیا جائے گا۔ آمروں کا ساتھ دینے والوں کو کبھی باوقار مقام حاصل ہوسکتا ہے؟ ہماری عدلیہ کا یہ کبھی مسئلہ نہیں رہا۔
اسلام آباد سے لاہور تک میاں نواز شریف کا سفر عوام میں ان کی سیاست کے زندہ رہنے کے لیے ناگزیر تھا۔ یہ سفر کتنا کامیاب رہا۔ نواز شریف کے لیے کس قدر جوش اور ولولے کا باعث رہا قومی اخبارات اور میڈیا سے لے کر بین الاقوامی میڈیا اور اخبار اس کے اثبات سے بھرے ہوئے ہیں۔ پچھلی مرتبہ ان کی معزولی پر عوام نے کسی خاص ناراضی کا اظہار نہیں کیا تھا لیکن اس مرتبہ عوام نے جس طرح ان کا استقبال کیا وہ دیدنی تھا۔ اس سفر میں نوازشریف جس تاثر کو قائم کرنے میں کامیاب رہے وہ ان کے باب میں عدلیہ کی ناانصافی کا معاملہ تھا۔ وہ عدلیہ مخالف فضا قائم کرنے میں کامیاب رہے۔ وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ فوجی حکمرانوں کے حوالے سے ہماری عدلیہ کا طرز عمل کچھ ہے اور عوام کے منتخب حکمرانوں کے حوالے سے کچھ اور۔



وہی قاتل وہی منصف عدالت اس کی وہ شاہد
بہت سے فیصلوں میں اب طرف داری بھی ہوتی ہے
المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں سول ہوں یا فوجی حکومتیں وردی والوں کی بالادستی اور حکمرانی رہی ہے۔ سول حکمرانوں کی حیثیت ’’منتخب مجبوروں‘‘ سے زیادہ نہیں رہی۔ سول حکمرانوں کو پہلے فوجی حکومتیں معزول کرتی تھیں اب عدلیہ کررہی ہے۔ آئین کی کسی شق کی زد میں آتے ہیں تو عدلیہ انہیں فوراً گھر بھیج دیتی ہے۔ قانون کی بالادستی کے حوالے سے یہ ایک مستحسن قدم ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ فوجی حکمران پورے آئین کو ہی لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیں تو اس آئین شکنی کے خلاف کوئی ایکشن لینا تو کجا عدلیہ ان کی معاون ہوتی ہے۔ کسی بھی مہذب سماج میں قوانین امتیازی نہیں ہوتے۔ اگرچہ نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ درست ہے لیکن اعلیٰ عدلیہ کے ماضی کے کردار نے عوام کی نظر میں نواز شریف کو مظلوم بنادیا ہے۔



سب کو یقین ہے ساقی نے کچھ شراب میں ملا یا ہے اور عدلیہ نے وہ زہر نواز شریف کے گلے میں اتا ر دیا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے حوالے سے جس طرح کا رویہ جنم لے رہاہے۔ وکلا سے لے کر سیاست دانوں تک عدالت کے ججوں کی جس طرح تذلیل وتضحیک کی جا رہی ہے کسی بھی مہذب جمہوری سماج میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر آج ہم ایک غیر مہذب سماج ہیں تو اس میں عدلیہ کے فیصلوں کا بھی بہت بڑا دخل ہے۔ ہر قانون پسند شخص اس صورت حال سے دل گرفتہ ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ عدلیہ اور اس کے ججوں کا احترام کیا جائے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عزت واحترام ان کے حصے میں آتا ہے جو دباؤ، تعصب، اقربا پروری اور مفادات سے بالاتر ہوکر ملک وقوم کی خدمت کرتے ہیں۔