مردم شماری کے نتائج پر اعتراضات

546

Edarti LOHملک کی متعدد سیاسی جماعتوں نے 2017ء کی مردم شماری کے نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان نتائج کے مطابق ملک میں مردوں کی تعداد خواتین سے زیادہ ہوگئی ہے۔ کے پی کے میں آبادی کا تین کروڑ 5 لاکھ سے تجاوز کرنا باعث حیرت قرار دیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے پی کے نے فاٹا سے متعلق اعداد و شمار کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ مختلف شہروں کی آبادی بھی متنازع ظاہر کی گئی ہے۔ سیاسی رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کے محکمہ شماریات اور فوج کے حاصل کردہ اعداد و شمار کا موازنہ کیا جائے۔ غلطی کہیں بھی ہوئی ہو بہر حال غلطی ہے، اگر آبادی کے اعداد و شمار غلط ہوں گے تو پھر سارے کام آگے آنے والے منصوبے انتخابی فہرستیں، نشستوں کی تقسیم، فنڈز کی فراہمی وغیرہ سب پر اثرات پڑیں گے۔ بلاشبہ سیاسی جماعتوں کے اعتراضات اس حوالے سے بجا ہیں اور تشویش کا باعث ہیں۔ طویل عرصے بعد مردم شماری کرائی گئی اور اس میں اس قدر غلطیاں کسی بھی ملک کے لیے اچھی علامات نہیں ہیں۔



حکومت اس پر فوری توجہ دے اور غلطیوں کی اصلاح کی جائے سندھ میں دیہی اور شہری سندھ کی نمائندگی کے دعویداروں نے بھی اعتراض کیا ہے کہ سندھ کی 52 فی صد آبادی شہروں میں کس طرح موجود ہے یقیناًپیپلزپارٹی کو اس پر اعتراض ہے کیونکہ اسی طرح 52 فی صد نشستیں شہری علاقوں کے پاس آئیں گی اور پیپلزپارٹی کا انحصار دیہی علاقوں کے انتخابی نتائج اور نشستوں پر زیادہ ہوتا ہے اسی اعتبار سے بجٹ بھی ملتا ہے۔ گویا ہر اعتبار سے مردم شماری کے اعداد و شمار قابل اعتراض ہیں۔ حکومت تمام سیاسی جماعتوں کو طلب کرے، اس مسئلے کو حل کرے ورنہ مستقبل میں مزید مسائل پیدا ہوں گے۔