کیا پاکستان کے لیے جمہوریت ضروری ہے؟

442

zr_M-Anwerچھبیس اگست کو کراچی پریس کلب نے ’’کیا پاکستان کے لیے جمہوریت ضروری ہے؟‘‘ کے عنوان سے ایک سمینار کا انعقاد کرایا۔ اس پروگرام کا مقصد یقیناًملک میں جمہوریت اور جمہوری نظام کا استحکام ہوگا لیکن جمہوری دور حکومت میں یہ سوال اس بات کی نشاندہی کررہا تھا کہ قوم جمہوریت اور آمریت میں کون سا نظام بہتر ہے اس کا فیصلہ نہیں کرپارہی۔ چونکہ پریس کلب کی تاریخ گواہ ہے کہ پریس کلب اور اس سے وابستہ صحافیوں کی اکثریت نے ہمیشہ ہی سے جمہوریت کے فروغ اور اس کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کے خلاف اپنے دائرہ میں رہ کر جدوجہد کی ہے۔ باوجود اس کے کہ اخبارات اور صحافیوں کو زیادہ تر جمہوری دور ہی میں آمریت پسند سیاست دانوں نے نشانہ بنایا ہے یا نقصان پہنچایا ہے۔



ملک میں پہلی اور آخری مرتبہ یکمشت شام کے پانچ اخبارات روزنامہ آغاز، عوام، قومی اخبار، ایوننگ اسپیشل، پبلک، اور روزنامہ پبلک (صبح کا ایڈیشن) پر 29 جون 1995 اچانک ہی پابندی عائد کردی گئی تھی۔ یہ دور بھی آمریت نہیں بلکہ جمہوریت ہی کا تھا اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے عبداللہ شاہ کی حکومت تھی۔ جب کہ اس سے قبل پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1971 بھی صحافیوں اور اخبارات کے خلاف پہلی بار کی جانے والی کارروائی کا ’’سہرا‘‘ بھی جمہوری دور اور جمہوریت کی چمپئن کہلانے والی پیپلز ہی پارٹی ہی جاتا ہے۔ اس دور میں صحافیوں کو جیلوں میں بھی جانا پڑا تھا۔ یہ یاد دلانے کا مقصد یہ ہے کہ اخبارات اور میڈیا کے خلاف محاذ آرائی یا آزادی صحافت کے لیے رکاوٹیں فوجی آمروں کے دور کے مقابلے میں جمہوری دور میں کھڑی کی گئیں۔ تاریخ کے طالب علموں کی یاد دہانی کے لیے یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ ’’آج جو الیکٹرونک آزاد میڈیا موجود ہے، وہ بھی کسی جمہوری دور کا مرہون منت نہیں بلکہ اس وقت کے فوجی صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی کاوش تھی۔



یہاں موضوع ہے بحث ہے کہ ’’کیا پاکستان کے لیے جمہوریت ضروری ہے؟ اس کا مختصر اور فوری جواب تو یہ دیا جاسکتا ہے کہ ’’جو جمہوریت ہمارے یہاں رائج ہے وہ صرف سیاست دانوں کے لیے ضروری ہے‘‘۔ اس کا جمہور یعنی عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ’’طاقت کا سرچشمہ عوام ہے‘‘ کا نعرہ دینے والی پیپلز پارٹی نے جمہوری نظام حکومت کو نقصان پہنچانے کی ابتداء کی۔ سب سے بڑی خلاف ورزی تو پارٹی کے اندر شفاف انتخابات کے انعقاد نہ ہونا ہے۔ پیپلز پارٹی ہی نہیں بلکہ سوائے جماعت اسلامی کے ملک کی تقریباً تمام ہی جماعتیں آمرانہ اصول کے مطابق اپنے سربراہ کا انتخاب کرتی ہیں۔ جس کی تازہ مثال مسلم لیگ نواز میں نواز شریف کی نااہلی کے بعد انہوں نے اپنی اہلیہ کلثوم نواز کو مستقل وزیراعظم کے لیے نامزد کیا ہے کیونکہ ایوان میں موجود ان کی پارٹی کے 288 ارکان میں سے انہیں کوئی بھی رکن اس قابل نظر نہیں آیا جسے مستقل وزیراعظم منتخب کرایا جاسکے۔اگر یہ جمہوریت ہے تو پھر آمریت کیا ہوتی ہے۔



پیپلز پارٹی بنیادی طور پر سندھ کے وڈیروں اور زمینداروں کی پارٹی ہے مگر بلاجھجک اس کی صفوں سے آوازیں آتی ہیں کہ ’’یہ عوامی پارٹی ہے‘‘۔ حالانکہ کسی عام فرد کا اس طرح کی جماعت سے صرف اتنا تعلق ہوتا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے لیڈر کے پیچھے نعرے لگاتا ہوا دوڑتا رہے۔ پیپلزپارٹی میں آمریت کی جھلک دیکھنی ہو تو آصف زرداری کی سیاسی زندگی اور ان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کی کارروائی کو دیکھا جاسکتا ہے۔ جس میں کوئی دو نمبر کا لیڈر بھی ان کی بات کی مخالفت کرنے کی جرات نہیں رکھتا۔ شاید اسے پیپلز پارٹی میں لیڈر کا احترام کہا جاتا ہو۔
سیمینار کی صدارت سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کررہے تھے۔ اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت کو کبھی بھی پنپنے نہیں دیا گیا جو ایک غیر فطری عمل ہے جب کہ پاکستان کے قیام کی جدوجہد بھی بنیادی طور پر جمہوری اور وفاقی تھی پاکستان کی جڑوں میں جمہوریت ہے، فوجی حکومتوں کے دوران صوبوں میں احساس محرومیوں میں اضافہ ہوا ہے،



صدارتی طرز حکومت کو بار بار آزمایا جاچکا ہے یہ مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ یہ وہی رضا ربانی ہیں جنہوں نے 7جنوری 2015 کو فوجی عدالتوں سے متعلق 21ویں آئینی ترمیم کے بعد کہا تھا کہ ’’میں نے اس بل کی منظوری کے لیے اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دیا ہے جس کی وجہ سے وہ شرمندگی بھی محسوس کررہے ہیں‘‘۔ ان کے یہ جملے قوم کے لیے کہیں زیادہ شرمندگی کا باعث ہے جنہیں سن کر وہ اب تک اپنے ملک اور اپنے آپ سے شرمندہ ہے کہ انہوں نے کیسے عوامی لیڈرز کو سینیٹ کا چیئرمین بنادیا جو شرمندہ تو ہوتا ہے مگر مستعفی نہیں ہوتا۔ کوئی اب ان سے پوچھے کہ ضمیر کے خلاف اور شرمندگی کے باوجود آخر آپ نے اس بل کی منظوری کے لیے ووٹ کیوں دیا؟ ملک کے سب سے بڑے ایوان کے چیئرمین ہوکر آخر آپ کو کس کا ڈر یا کس کا احترام تھا کہ آپ نے فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری پر نہ صرف حامی بھری بلکہ اس پر دستخط کرکے سینیٹ سے منظوری بھی دی۔؟ ایسے لوگ ایوانوں میں ہوں گے تو پھر قوم کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ ایسی جمہوریت ہمیں نہیں چاہیے۔



اس سیمینار سے نیشنل پارٹی کے سربراہ اور وفاقی وزیر میر حاصل خان بزنجو، ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار، پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو، جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر اسد اللہ بھٹو، مسلم لیگ ن سندھ کے صدر بابو سرفراز جتوئی، مسلم لیگ فنکشنل سندھ کے جنرل سیکرٹری سردار عبدالرحیم، مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد، پاک سرزمین پارٹی کے رہنما انیس احمد ایڈوکیٹ، تحریک انصاف کے رہنما علی زیدی، قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو، معروف صحافی و تجزیہ نگار مظہر عباس، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے مرکزی رہنما سید غلام شاہ، کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر نعیم قریشی، معروف مذہبی اسکالر انیق احمد، کراچی پریس کلب کے صدر سراج احمد اور سیکرٹری مقصود یوسفی نے بھی خطاب کیا۔
اس سیمینار میں بعض ایسی بھی شخصیات تھیں جنہوں نے آمریت اور جمہوریت دونوں ہی کا ’’بلاامتیاز‘‘ خوب ساتھ دیا۔ نتیجے میں انہیں ووٹ بھی اسی ’’خوبی‘‘ سے ملتے رہے۔ جب کہ وہ شخصیات بھی تھیں جن پر ان کی مخالف جماعت، ایجنسیوں کا ہاتھ ہونے کا الزام بھی لگاتی رہی اور انہیں ووٹ بھی نہیں ملے۔



گوکہ عوام انہیں مسترد کرتے رہے مگر پھر بھی وہ جمہوریت کے حامی نظر آئے۔ جب کہ مقررین میں ایسے بھی صحافی موجود تھے جنہیں یہ کہنا مشکل ہورہا تھا کہ جمہوریت تو اچھی ہوتی ہے مگر موجودہ جمہوریت کو دیکھ کر صرف ’’بدترین آمریت‘‘ کا ہی خیال آتا ہے۔ اگر ایمانداری سے غور کیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچنا کوئی مشکل نہیں ہے کہ موجودہ دور کے اکثر جمہوریت پسندوں کا تعلق صرف خود غرضی سے ہے۔ یہ جمہوریت کے نعرے لگاتے ہوئے کھل کر یا خفیہ طور پر آمروں کے ساتھ بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ بعض سیاست دان تو سیاست میں صرف اسی وجہ سے ’’اچھل کود‘‘ کرتے رہتے ہیں کہ ان کا کاروبار چلتا رہے۔ اور وہ اپنی کسی کمزوری کے لپیٹے میں نہ جائیں۔



قوم کی خواہش ہے کہ اگر یہ سیاست دان واقعی عوام اور ملک کے ساتھ مخلص ہیں تو ایک بار اراکین اسمبلیوں کو دی جانے والی تنخواہوں اور مراعات کو ختم نہیں صرف پچاس فی صد کم کرنے کے لیے مہم شروع کردیں اور جو لوگ ایوانوں میں پہنچ چکے ہیں وہ اس بارے میں عملی مظاہرہ کرتے ہوئے ازخود مراعات اور تنخواہوں میں کمی کا بل پیش پیش کردیں۔ تجویز ہے کہ اراکین اسمبلیوں کی تنخواہوں اور مراعات سے ہونے والی بچت کو معروف این جی اووز کی نگرانی میں چلنے والے ہسپتالوں کے حوالے کردیا جائے تاکہ غرین مریضوں کا مزید بہتر طریقے علاج ہوسکے۔