پاک امریکا تعلق کا کورا کاغذ

428

zc_ArifBeharامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جم کر پاکستان کے لیے دھمکی اور بھارت کے لیے تھپکی کا رویہ اپنایا۔ پاکستان کو چھڑی دکھائی تو بھارت کے لیے ان کے پاس شاخِ زیتون تھی۔ یہ مودی ڈاکٹرائن کے عین مطابق پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے اور اپنی ناکامیو ں کو پاکستان کی آڑ میں چھپانے کی ایک نفسیاتی کوشش تھی۔ بھارت امریکا کی طرف سے افغانستان میں معاون اور مثبت کردار پر مبنی اچھے چال چلن کا سرٹیفکیٹ ملنے پر پوری طرح جشن بھی نہ منا سکا کیونکہ پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش نے کئی دوست اور ہمدرد دیے جو بہت کھل کر امریکا کے اس تحکمانہ رویے اور پاکستان کی حمایت میں بول پڑے۔ امریکا کی طرف سے پاکستان کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش بظاہر ناکام ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکا کو پاکستان اور دوسرے ملکوں کی طرف سے ایسے ردعمل کا اندازہ نہیں تھا اور یہ بات بھارتی قیادت کے وہم وگمان سے قطعی باہر تھی کہ امریکا میں گرم کیک کی طرح فروخت ہونے والا پاکستان کو تنہا کرنے کا بھارتی بیانیہ روس اور چین جیسی طاقتوں کے نذدیک یوں ناقابل اعتناء قرار پا کر بے وقعت ہو جائے گا۔



پاکستان کے ردعمل کا انتظار کیے بغیر ہی چین کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر پر ردعمل سامنے آیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کی تعریف کی گئی۔ اس کے بعد دوسرا اہم ردعمل روس کی جانب سے آیا اور پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی کو غلط قرار دیا گیا۔ پاکستان نے بھی ماضی کی روایات سے ہٹ کر امریکی صدر اور وزیر خارجہ کی ہرزہ سرائی کا مسکت جواب دینے کی پالیسی اختیار کی۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سعودی عرب گئے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی سفیر کو بلا کر کہا کہ پاکستان کو امداد کی نہیں اعتماد کی ضرورت ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان نے امریکی امداد کے لیے ریشۂ خطمی ہونے کا رویہ تبدیل کرکے خود انحصاری اور خود اعتمادی کی راہ اپنانے کا راستہ اپنایا ہے۔



قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیر خارجہ خواجہ آصف کا طے شدہ دورۂ امریکا معطل ہوگیا اور اب وہ پہلے چین اور عین ممکن ہے کہ روس بھی جائیں گے۔ امریکا نے پاکستان کو خوف زدہ کرکے جو منظر تخلیق کرنے کی کوشش کی تھی یکسر نئے انداز سے تخلیق ہوگیا ہے۔ اس سے خطے میں اُبھرنے والے ایک نئے علاقائی بلاک چین روس اور پاکستان کے دھندلے نقوش کچھ زیادہ ہی گہرے ہوگئے پاکستان اس بلاک کا ایک مرکزی اور اہم کردار بن چکا ہے۔ جہاں یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ امریکا خطے میں بھارت کا دوست اور سرپرست ہے اور بھارت کا ہر مخالف امریکا کا مخالف ہے وہیں یہ حقیقت بھی عیاں ہو گئی کہ پاکستان نہ تو ماضی میں امریکی امداد کے سہارے زندہ رہا ہے اور نہ ہی امریکی امداد اس کے لیے ’’آبِ حیات‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ امریکی امداد کے بغیر بھی پاکستان کے پاس بہت سے آپشن موجود ہیں اور پاکستان ان آپشنز سے فائدہ اُٹھانے کی پوزیشن میں ہے۔



امریکا نے افغانستان کی جنگ میں استعمال ہونے والی ائر بیسز کا کرایہ دیا نہ سپلائی کی فراہمی کی راہداری کے عوض ادائیگی کی۔ اس جنگ کے استعمال سے انفرا اسٹرکچر کا حال بگڑ گیا مگر امریکا کو اس سے کوئی غرض نہیں رہی۔ اُلٹا یہ کہ امریکا اپنی ہی امداد کا بہی کھاتا کھولے بیٹھا رہا اور وہ امداد گنواتا رہا جو این جی اوز کے ذریعے خرچ کی جاتی رہی اور جس کا بڑا حصہ واپس امریکیوں کو ہی جاتا رہا۔ آرمی چیف نے بجا کہا ہے کہ پاکستان کو امداد کی نہیں اعتماد کی ضرورت ہے مگر اس وقت عالم یہ ہے کہ امداد تو رہی نہیں کیونکہ امریکا پہلے ہی اسے مشروط اور کم کرتے کرتے بے معنی بنا چکا ہے اور اعتماد نام کی کوئی چیز بھی باقی نہیں رہی۔ امریکا پاکستان کو شک کی نظروں سے دیکھنے سے آگے بڑھ کر دشمن کے خانے میں بٹھا چکا ہے۔



ایبٹ آباد آپریشن میں پاکستان کو لاتعلق اور بے خبر رکھنا اس بات کا ثبوت تھا کہ امریکا پاکستان پر اعتماد نہیں کرتا اور پاکستان کو امریکا پر اعتماد نہیں رہا کیونکہ انہیں اب امریکا کی آنکھوں میں بھارت اور اسرائیل کی شبیہ معلوم ہوتی ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ امریکا کو دی جانے والی معلومات یا پاکستان کے اندر رسائی سے اسرائیل اور بھارت بالواسطہ طور پر مستفید ہو سکتے ہیں۔ یوں امریکا اور پاکستان عدم اعتماد اور خوف کا شکار ہیں۔ امریکا اور پاکستان میں معاملات اس قدر بگڑ گئے ہیں کہ یہ کہانی کورا کاغذ ہو کر رہ گئی ہے جس پر اعتماد اور امداد اب کچھ بھی درج نہیں۔ ہاں امریکا میں کوئی ذی ہوش شخص آگے آئے اور ٹرمپ ازم کا مقابلہ کرتے ہوئے کورے کاغذ پر نئے سرے کوئی کہانی رقم کی جا سکتی ہے۔