پاکستان کی پالیسی کیا ہے؟؟

376

Edarti LOHوزیر اعظم پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کے بارے میں بھی ناکامی کی پیشگوئی کی ہے جبکہ ایک خبر کے مطابق پاکستان نے امریکی حکام پر پابندی لگا دی ہے کہ وہ اجازت کے بغیر پاکستان نہیں آ سکتے پاکستان نے امریکیوں تک یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ تعلقات جب پہلے کی طرح نہیں رہے اور آپ کی طرح ہم بھی نئی پالیسی بنا رہے ہیں تو غیر معمولی حالات میں معمول کے دوروں کی ضرورت نہیں ۔ اگر یہ خبر درست ہے تو یہ موجودہ اور سابق دونوں صدیوں کی سب سے بڑی خبر ہے کہ کسی مسلمان ملک نے کسی مغربی ملک اور بڑی طاقت کو ایساپیغام بھیجا ہو۔19ویں صدی اور اس سے قبل کی صدیوں میں تو مسلمان حکمران ایسے پیغامات بکثرت بھیجا کرتے تھے کہ مسلمان ہو جاؤ یا خراج دو یا جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ ۔ جہاں کہیں کسی مغربی طاقت یا غیر مسلم طاقت نے ظلم کیا مسلمان حکمران کا ہرکارہ پیغام لے کر پہنچ جاتا تھا ۔ کہ باز آؤ ورنہ بہر حال جو بتایا گیا ہے ہم اس ہی پر یقین کرتے ہیں



وزیر اعظم پاکستان کے بیان پر بھی جی نہ چاہنے کے باوجود یقین کر لیتے ہیں کہ ٹرمپ کی افغان پالیسی ناکام ہو گئی ۔ پاکستانی قوم اس مخمصے میں ہے کہ امریکی پالیسی کا میاب ہو یا ناکام پاکستان کی افغان پالیسی کیا ہے؟ ایک زمانہ تھا پاکستان سے ہواؤں کا رُخ افغانستان کی جانب تھا ۔ اس زمانے کے ایک ہیرو میجر عامر ٹی وی پر آ کر یہ وضاحت کر رہے تھے کہ پاکستان نے کسی کو مسلح کر کے یا اسلحہ دے کر افغانستان نہیں بھیجا۔۔۔ اس کو بھی نہ چاہتے ہوئے مان لیا جائے تو کیاہے یہ بات تو بتائیں کہ بھیجا تھا کہ نہیں ، کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان سے مجاہدین سازی تو کی جا رہی تھی۔پورے ملک کی فضا ایسی ہی تھی جس کی مرضی آتی وہ ایک مجاہد ساز فیکٹری بنا لیتا۔ بڑا منفعت بخش کاروبار تھا اور جو لوگ کر رہے تھے ان کو سب نے دیکھا کہ وہ کیا سے کیا بن گئے ۔ مجاہد اور مومن کی یہ خصوصیت سب ہی جانتے ہیں کہ مومن تو بے تیغ بھی لڑتا ہے جب مجاہد تیار ہو گیا تو وہ رکنے والا نہیں پھر اسے میدان چاہیے اور بیدان پاکستان سے متصل تیار تھا ۔ پاکستانی حکمرانوں نے ایک عشرے تک مجاہد ساز فیکٹریاں چلائیں۔ اس کی بائی پروڈکٹ بھی تیار ہوئی کاروبار خوب پھیل گیا افغانستان سے سوویت یونین نکل گیا اور امریکا آ گیا اب حالات بدل گئے۔



1999ء سے پاکستان کے حکمران ان ہی مجاہدین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مار رہے ہیں جن کو بڑی محنت سے تیار کیا تھا۔پہلے ملک کے چپے چپے سے ایسے نوجوان تلاش کیے گئے کہ جو دین کے نام پر جان دینے کو تیار ہوں جب یہ جوان جان ہتھیلی پر رکھ کر پہاڑوں پر چڑھ گئے اور سوویت ریچھ کو شکارکرلیا تو فتح کا ہار پہننے کے لیے امریکا پہنچ گیا۔اس جہاد کے اصل فاتحین کو تو ایک ہی طیارے میں اڑادیا گیا اب 9/11 کے بعد کی دنیا بدلتے ہی پاکستان کی پالیسی بھی بدل گئی۔ جنرل پرویز مشرف جو اقتدار سنبھالنے کے بعدبہت دن تک کشیری جد وجہد آزادی کے بھی حامی رہے مغربی صحافیوں کو جواب دیا کرتے تھے کہ دہشت گردی اور حریت پسندی میں فرق ہوتا ہے۔ کشمیری آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں دہشت گرد نہیں لیکن ان کی افغان اور کشمیر دونوں پالیسیاں یکدم تبدیل ہوگئیں۔ دونوں جگہ کے مجاہد راتوں رات دہشت گرد قرار پائے۔ جن لوگوں نے حکومت پاکستان اور اس کی ایجنسیوں کے کہنے پر اپنے جگر گوشے افغانستان اور کشمیر میں لٹادیے ان کو دہشت گرد قرار دے دیا اور تو اور اب بھی اگر کوئی افغانستان میں غیر مسلم اور غیر ملکی افواج کے خلاف جد وجہد کرتا ہے تو اسے دہشت گرد ہی قرار دیا جاتا ہے۔



کبھی امریکا افغانستان میں انہیں مارتا ہے تو کبھی پاکستان میں ڈرون سے اور کبھی پاکستانی جیٹ طیارے انہیں نشانہ بناتے ہیں۔ یہ کون لوگ مارے گئے یہ کن کو تلاش کرکے مارا جارہاہے۔ کیا پالیسی ہے افغانستان کے بارے میں پاکستان کی۔ اور کشمیر کی پالیسی کو افغانستان سے الگ نہیں کیا جاسکتا اس وقت کے پالیسی سازوں کے خیال میں افغانستان سے فارغ ہونے والی جہادی قوت کو کشمیر میں استعمال کیا جائے گا لیکن اس سے پہلے کہ کشمیر میں کچھ کیا جاتا 9/11 ہوگیا اور مجاہد دہشت گرد بن گئے۔ دہشت گرد اور قابض بھارتی دوست بن گئے۔ 1979ء سے 1990ء تک افغانستان میں غیر ملکی فوج سے پاکستان کی دشمنی تھی اور 2000ء یا اس کے بعد افغانستان میں داخل ہونے والی غیر ملکی فوج کا پاکستان محافظ بن گیا۔ اس کے دشمنوں کو اپنا دشمن قرار دیا یا اس کی جنگ کو اپنی جنگ قرار دے دیا۔ جس نسل کو ہمارے حکمرانوں نے یہ سبق پڑھایا تھا کہ افغانستان میں غیر ملکی اور کافر قوتیں مسلمانوں کے خلاف سازش کررہی ہیں وہ نسل تو اسی پر ایمان رکھتی ہے۔



اسی کے مطابق کام کررہی ہے۔ اب پاکستان کی عبوری حکومت نے مستقل پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ دیا ہے۔ اب پاکستان کیا پالیسی بنائے گا؟ آنے والے دنوں میں موجودہ دہشت گردوں کو کب سے مجاہدین کہا جانے لگے گا۔ اصل مسئلہ اور مخمصہ یہی ہے پاکستانی حکمران اور طاقت کے مراکز ایک مرتبہ طے کرلیں کہ پاکستان کی پالیسی کیا ہے۔ افغانستان میں اگر سوویت یونین غلط کرے تو غلط اور امریکا کرے تو درست۔ یہ پالیسی تو نہیں ہوئی۔ اسی طرح کشمیر کے لیے پہلے مجاہدین تلاش اور تراش کر بھیجے گئے اب ان سے برأت اور کنارہ کشی، بے رخی تو پھر مجاہد کبھی تو بپھربھی سکتے ہیں پھر ان کو جو چاہے نام دے لیں۔ اپنی مستقل پالیسی بنائیں پھر پاکستان کے علاقے میں آپریشن کی ضرورت نہیں رہے گی۔