ایک بدمعاش کی پاکستان کو دھمکی

168

baba-alifصدر ٹرمپ کی افغا ن پالیسی پر مبنی 21اگست کی تقریر جمہوریت کا حسن تھی۔ الیکشن مہم میں عوام سے کیے گئے وعدوں کو بے حیائی سے بھلادینا ہی جمہوریت کا حسن ہے۔ رنگا رنگ انتخابی مہم میں عوام کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ اصل حکمران اور فیصلہ ساز وہی ہیں لیکن ایوان اقتدار میں قدم رکھتے ہی عوام سے کیے گئے وعدوں کی بازگشت پاگلوں کو سنائی دینے والی بے حقیقت آوازوں سے زیادہ نہیں رہتی۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں افغانستان سے فوجوں کی واپسی کا بارہا اعادہ کیا تھا لیکن اب وہ پینٹاگون کے جرنیلوں کے نرغے میں آئے ہوئے ایک بے بس صدر ہیں۔ جو طالبان ایک لاکھ امریکی اتحادی افواج کو دن میں تارے گننے پر مجبور کرسکتے ہیں وہ بارہ ہزار افواج کے گھیراؤ میں آکر سرنڈر کرجائیں گے؟ ’’کیا وہ مزید چار ہزار امریکی فوجیوں کی بھنبھناہٹ سے متاثر ہوجائیں گے۔؟ جرنیلوں نے صدر ٹرمپ کو باور کرایا ہوگاکہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا مطلب ہے افغانستان کو طالبان کے رحم وکرم پرچھوڑنا جو ’’امریکا کی قومی سلامتی‘‘ کے حوالے سے ایک خطرناک صورت حال ہوسکتی ہے۔



دوسری وجہ افغانستان میں موجود تانبے اور قیمتی معدنیات کے بے پناہ ذخائر ہیں جن پر امریکی جمہوریت کے فنانسر ان سرمایہ داروں کی نظر ہے جو حکمرانوں کو برسراقتدار لاتے ہیں۔ امریکی ہر کام انسانیت کی ’’فلاح وبہبود‘‘ کے لیے کرتے ہیں جس کے لیے سی آئی اے جنوبی امریکا سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک false flag operation بم دھماکے اور قتل وغارت میں مصروف ہیں۔
جب سے صدر ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے مکین بنے ہیں وائٹ ہاؤس پر ریسلنگ رنگ کا گمان ہونے لگا ہے جہاں ریسلر تماشائیوں کا خون گرمانے کے لیے ایک دوسرے کو دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کبھی شمالی کوریا کو ایٹمی جنگ کی دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں تو کبھی وینزویلا پر فوج کشی کا ارادہ ظاہر کرتے۔ صدر ٹرمپ کے پاگل پن سے امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی پریشان ہے۔ صدر ٹرمپ دنیا کے امن کے لیے خود بڑا خطرہ ہیں۔



جہاں تک پاکستان کو ان کی حالیہ دھمکی کا تعلق ہے تو یہ متوقع تھی۔ الیکشن مہم سے ہی پا کستان کے بارے میں ان کے خیالات نفرت سے پر تھے۔ ہمیں ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے تھا ۔ جب سے بھارت امریکا کا اتحادی بنا ہے امریکا خطے کے معاملات کو مکمل طور پر بھارت کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ اگر مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کوئی کارروائی کرتے ہیں تو بھارت کے ساتھ ساتھ امریکا کو بھی اس میں پاکستان کی دراندازی کا یقین ہوتا ہے۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو وہاں کے واقعات میں امریکا اور افغان حکومت کی فتنہ پروریوں کے بجائے امریکا کو حقانی نیٹ ورک کی سر گرمیاں نظر آتی ہیں جو پاکستان کے کنٹرول میں ہیں اور پاکستان کے اشاروں پر افغانستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ اگر پاکستان حقانی نیٹ ورک کو کارروائیاں کرنے سے روک دے اور اپنے علاقوں میں ان کی پناہ گاہیں ختم کردے تو افغانستان امن وامان کا سمبل بن جائے گا، یہ خیال زمینی حقائق کے کتنا برعکس ہے امریکیوں کو کون سمجھائے۔



امریکا افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی اپنی جنگ ہار چکا ہے۔ امریکا کی تشکیل کردہ افغان حکومت محض کابل تک محدود ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی اس حکومت کا امتیازی نشان ہے۔ امریکا ہاتھ اٹھالے تو یہ حکومت چند گھنٹوں کی محتاج ہے۔ افغان طالبان محض پھونکوں سے اس حکومت کا چراغ گل کرسکتے ہیں۔ طالبان افغانستان کے پچھتر سے نوے فی صد حصے پر قابض ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا دوسرا بلکہ اصل اور بڑا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا تھا۔ امریکن سی آئی اے، دیگر خفیہ اداروں اور پرائیوٹ آرمی نے پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک دھماکوں کا محشر بپا کردیا لیکن اہل پا کستان کے عزم حوصلے اور بے خوفی نے اسے ناکام بنادیا۔ امریکا پاکستان اور افغانستان میں یہ جنگ ہار چکا ہے۔ پاکستان مکمل طور پر اس کے کنٹرول میں آنے کے بجائے اس کے کنٹرول سے نکل رہا ہے۔ امریکا کھسیانا ہوکر پاکستان پر جھپٹ رہا ہے۔ صدرٹرمپ کی تقریر شکست کا ردعمل ہے۔



دھمکی کمزوری کی علامت ہوتی ہے۔ پاکستان کو سزا دینے کی پالیسی امریکا کی ہمالیہ جیسی غلطی ہوگی۔ صدر ٹرمپ کی تقریر جسے صدر ٹرمپ کا افغان پلان کہا جارہا ہے کوئی حقیقی اور مجسم وجود نہیں رکھتا۔ افغانستان میں پاکستان کا کلیدی رول ہے جسے سفارتی اور خارجہ محاذ پر اجاگر کرنے میں ہماری حکومت اور سیاست دان ناکام رہے۔ صدر ٹرمپ کی دھمکی کے جواب میں ردعمل سے جس کی تلافی کرنے کی کوشش کی گئی۔ ابتدا سابق صدر زرداری اور عمران خان کے امریکا دشمن بیانات سے ہوئی۔ وزیر اعظم خاقان عباسی سعودی عرب کے دورے پر تشریف لے گئے۔ امریکا کی مخالفت میں ہم سعودی عرب سے کیا حاصل کرسکتے ہیں۔؟ شاہ سلمان نے تو ملنا گوارا نہ کیا البتہ ان کے شہزادے محمد بن سلمان سے ان کی ملاقات ہوسکی۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے پہلے امریکا کے دورے کا ارادہ کیا پھر کہا گیا کہ وہ روس اور چین کے دورے کے بعد امریکا جائیں گے پھر امریکا جانے کا پروگرام ملتوی کردیا گیا۔ آرمی چیف جنرل باجوہ نے یہ مضمحل سا بیان دیا کہ ہمیں امریکی امداد نہیں بلکہ امریکا کا اعتماد چاہیے۔ امریکا کا اعتماد! ہا ہا ہا۔۔ ہا ہاہا۔ 24اگست کو وزیراعظم ہاؤس میں وزیراعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں اعلیٰ ترین عسکری اور سول قیادت نے شرکت کی۔ اجلاس کا مقصد صدر ٹرمپ کے الزامات اور دھمکی کا تفصیلی جواب دینا تھا۔ 30اگست کو پھر ایک ایسے ہی اجلاس کا پروگرام ہے۔ ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ نئے وزیراعظم خاقان عباسی اگلے ماہ امریکا جائیں گے۔ اس کے بعد کیا ہوگا اس کے لیے کسی علم نجوم کی ضرورت نہیں۔



پاکستان کے حکمرانوں کی تمام چلت پھرت اور سر گرمیاں عوام کو دھوکا دینے کے لیے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس اور سلالہ چیک پوسٹ حملے میں اس سے کہیں زیادہ عزت اور غیرت کی اداکاری کی گئی تھی، کہیں زیادہ امریکا مخالف جذبات کا مظاہرہ کیا گیا تھا لیکن آخرکار ہوا وہی جو امریکا چاہتا تھا۔ جو قیادت سلالہ چیک پوسٹ پر اپنے فوجیوں کے بے گناہ مارے جانے پر غیرت اور جوش میں نہ آسکی اور امریکا سے معذرت کے دو بول نہ کہلوا سکی وہ دھمکیوں پر کیا اسٹینڈ لے سکتی ہے؟ ابھی تک امریکا کے خلاف کوئی ادنیٰ ترین بھی عملی قدم نہیں اٹھایا جاسکا۔ یہ تک کہنے کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی کہ اگر اب تک کی قربانیوں کا یہ صلہ ہے تو آج سے ہم اپنے آپ کو اس صلیبی جنگ سے علیحدہ کرتے ہیں جس میں آج امریکا کی افغانستان میں موجودگی پاکستان اور جنرل پرویز مشرف کے تعاون کا نتیجہ ہے۔ آج سے ہم اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کی کسی امریکی کوشش کا حصہ نہیں بنیں گے۔



خطے میں طاقت پاکستان کے پاس ہے۔ ہم ایک ایٹمی قوت اور دنیا کی چھٹی اور لڑاکا ترین فوج رکھتے ہیں۔ پاکستان جس محل وقوع کا حامل ہے پاکستان کو نظر انداز کرکے یا دشمن بناکر امریکا کوئی کا میابی حاصل نہیں کرسکتا۔ اپنی اس طاقت کو سولہ برس سے ہم امریکا کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ چین اور روس پاکستان کی حمایت کررہے ہیں لیکن خطے میں بننے والی نئی صف بندیاں ابھی کوئی ٹھوس شکل اختیار نہیں کرسکی ہیں ہمیں روس اور چین سے زیادہ اپنے اللہ اور اپنے آپ پر بھروسا کرنا ہوگا۔ آپ ایک مرتبہ یہ بھروسا کرکے تو دیکھیں۔ یہ عسکری قیادت کے امتحان کا وقت ہے۔ ابھی سے یہ باتیں سامنے آرہی ہیں کہ امریکا سے حالات بگڑے تو عسکری اخراجات اور چیلنجوں کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا۔ قرضوں پر منحصر پاکستانی معیشت امریکا اور آئی ایم ایف کی ناراضی کی کس درجہ متحمل ہوسکتی ہے۔ امریکا کے باب میں 70برس سے ہم ایسے ہی سوالوں کے اسیر ہیں اور جواب میں کمزوریاں، ناکامیاں اور قومی غیرت کے سودے حاصل کررہے ہیں اور جب تک امریکی ایجنٹ اس ملک میں حکمران ہیں صورت حال میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔