سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اختر مینگل بھی۔۔۔

246

حبیب الرحمن
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ہر آنے والے دن کے ساتھ مشکلات میں گھرتا جارہا ہے۔ ہر آنے والا لمحہ اس کی مشکلات کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ بیرونی دنیا کا اس میں کتنا ہاتھ ہے، یہ الگ بحث لیکن جو اس کے ساتھ اس کے اپنے کر رہے ہیں اس کی جانب توجہ کم ہی نظر آرہی ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ’’ایک جنگل میں دو شیر اور ایک میان میں دو تلواروں‘‘ والا مسئلہ ہے جو اب نہ ختم ہونے والا سلسلہ بنتا نظر آرہا ہے۔ باہر کی دنیا پریشان ہے کہ ہم پاکستان سے کوئی معاہدہ کریں تو راولپنڈی جائیں یا اسلام آباد۔ یہی وہ سبب ہے جس کی وجہ سے بیرونی دنیا ہم پر کسی بھی معاملے کے سلسلے میں اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔



اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری اس تباہی میں ہمارے پڑوسیوں سمیت دنیا کے دیگر ممالک کا بھی ہاتھ ہے لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمارا دشمن ہم پر خشت باری کے بجائے گل پاشی کرے گا؟۔ دشمن جو بھی ہو، وہ ہمارے ہی گھر والوں کے کاندھوں پر چڑھ کر ہی آئے گا اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ یہ بات میں یونہی نہیں کہہ رہا ہوں، محمود خان اچکزئی کیا کیا کچھ کھلے عام کہہ رہے ہیں اور کہتے رہے ہیں، اس کا علم پاکستان ہی کو نہیں پوری دنیا کو ہے۔ اسی قسم کی ایک آواز بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ کی بھی باہر کی دنیا میں گونج رہی ہے۔ میں ان ہی کی زبان سے کہے ہوئے الفاظ قارئین کے سامنے رکھنے کے بعد اپنی ایک بات کہہ کر قارئین کے سوچنے اور فیصلہ کرنے کے لیے کہہ کر اجازت چاہوں گا۔



بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ، سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان میں قوم پرست تحریک کو کچلنے کے لیے ریاستی اداروں نے دوسرے علاقوں سے دہشت گردی بلوچستان میں درآمد کی ہے۔ قیام پاکستان کے 70 برس مکمل ہونے کے تناظر میں پاکستان کے ماضی، حال اور مستقبل پر سیاست دانوں کے ساتھ انٹرویوز پر مشتمل بی بی سی اردو کی خصوصی سیریز، ’’وژن پاکستان‘‘ میں بات کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان میں جاری دہشت گردی کو سمجھنا کوئی ریاضی کا سوال نہیں، وہاں سب جانتے ہیں کہ ’مذہبی انتہا پسندی پھیلانے والی تنظیموں کے لوگ کھلے عام گھوم پھر سکتے ہیں اور ان کے پاس اداروں کے (شناختی) کارڈ بھی ہیں۔ ان کو لائسنس ’’ٹْو کِل‘‘ دیا ہوا ہے۔



ایک سوال کے جواب میں سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل کا جواب تھا، وہ ایسی تصاویر دکھا سکتے ہیں، جن میں مطلوبہ جرائم پیشہ دہشت گرد، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بغل گیر کھڑے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ انڈیا (بلوچستان میں) ملوث نہیں ہوگا، وہ ہوگا، لیکن اسے یہ موقع بھی ہم نے دیا ہے، اگر ہم کسی کے معاملات میں مداخلت کریں گے تو وہ بھی کریں گے۔ یہ دونوں طرف سے ہورہا ہے، جو نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ سردار مینگل نے سوال کیا کہ ’’ہم نے کیا افغانستان میں مداخلت نہیں کی؟ کیا ہم اس سے خود کو بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں؟ کیا مجاہدین ہم نے نہیں پالے، کیا طالبان ہم نے نہیں پالے؟ کیا یہ اسلام کے نام پر تھا یا پاکستان کے لیے تھا یا پھر ڈالروں کی وجہ سے تھا۔ ہم نے ڈالروں کی وجہ سے پاکستان کو بیچ ڈالا۔‘‘



صوبے میں حالات کیسے بہتر کیے جاسکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ شدت پسندوں سے بات کرنا چاہیے۔ ’’جب آئی آر اے اور برطانیہ کی حکومت بات کر سکتے ہیں تو پھر ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ بقول اختر مینگل پاکستان کی سیاسی قیادت بہت بے اختیار ہے، طاقتور صرف اسٹیبلشمنٹ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اسٹیبلشمنٹ نے بلوچستان کو اپنا حصہ نہیں سمجھا، اسے صرف ایک کالونی سمجھا ہے اسے پنجاب کی کالونی سمجھا ہے، جب تک بلوچستان کو حصہ نہیں سمجھا جائے گا مسائل حل نہیں ہوں گے‘‘۔ ملک سے متعلق محمد علی جناح کے وژن پر بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ 70 برسوں میں جتنے بھی حکمران آئے چاہے وہ ووٹ سے آئے یا بندوق کے ذریعے، ان سب نے جناح صاحب کے وژن کو مسخ ہی کیا ہے۔ ان کے بقول جناح کے وژن میں سنہ 1940 کی قرارداد تھی، جس میں تمام صوبوں کو خود مختاری دی گئی تھی۔



ان کا کہنا تھا کہ ’’کیا آج کے پاکستان میں انہیں وہ خود مختاری حاصل ہے۔ صوبوں کو اگر حیثیت دی جاتی تو پاکستان نہ ٹوٹتا۔ جناح صاحب کے وژن کی سکرات جناح صاحب کی وفات سے شروع ہوگئی تھی اور موت پاکستان کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی ہوگئی تھی‘‘۔
انہوں نے کہا کہ باعث مجبوری ریاست کے جغرافیہ کو تسلیم کرتے ہیں، سیاست دان بھی مجبور ہیں، صوبے بھی مجبور ہیں۔ ان کے بقول بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کی ذمے دار وہ جماعتیں، ادارے اور حکومتیں ہیں جنہوں نے وہاں نوجوانوں کو مایوسی کی جانب اس حد تک دھکیلا ہے وہ اب علیحدگی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ سردار اختر مینگل نے بلوچستان میں شدت پسندوں کی جانب سے معصوم لوگوں کو قتل کیے جانے کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سیاسی سرگرمی کو تباہ کیا گیا ہے، سیاسی کارکنوں کو غائب کیا گیا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان انتہائی مایوس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک اسٹیبلشمنٹ اپنی سوچ نہیں بدلے گی، پاکستان تاریکی کی طرف جائے گا۔ ’’مجھے پاکستان میں تاریکی نظر آرہی ہے، کوئی قیادت نہیں جو روشنی کی جانب لے جائے‘‘۔



اپنے اس انٹر ویو میں بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ، اختر مینگل نے کچھ باتیں بہت ہی سخت کہی ہیں جو ایک ایسے فرد سے جو صوبے کا سربراہ رہ چکا ہو اس کے منہ سے کسی صورت مناسب نہیں۔ ان کی یہ باتیں ’’براہمداخ بگٹی‘‘ کے منہ سے نکلے ہوئے تیر و نشتر سے بھی زیادہ دل چیرنے والی باتیں ہیں اس لیے کہ ’’براہمداخ‘‘ پاکستان کی کسی بھی اہم ذمے داری پر کبھی فائز نہیں رہا۔ دنیا نے جو وزن ایک سابق سربراہ بلوچستان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میں محسوس کیا ہوگا۔ مثلاً ’’بحالت مجبوری پاکستان کے جغرافیہ کو ماننا‘‘وغیرہ کہ آخر میں میں ایک بات برائے غور و فکر رکھ کر اجازت چاہوں گا اس لیے کہ جو فرد بھی پاکستانی پاکستان کے متعلق ’’منفی‘‘ سوچ رکھتا ہے شاید وہ اندر سے ’’ظاہری‘‘ پاکستانی سے کہیں زیادہ پاکستان کا درد رکھتا ہو لیکن ہم اسے سمجھنے میں غلطی کر رہے ہوں۔



ایک اسکول ٹیچر کسی بچے سے کہتی ہے ’’یہ ’’دو‘‘ سیب میں تمہاری میز پر رکھ رہی ہوں اگر ’’دو‘‘ اور رکھ دوں تو یہ کتنے ہو جائیں گے؟۔ بچہ انگلیوں پر حساب لگاتا ہے، پھر کچھ سوچتا ہے اور اعتماد کے ساتھ کہتا ہے ’’پانچ‘‘۔ ٹیچر زناٹے میں آجاتی ہے اس لیے کہ یہ وہ بچہ ہے جو کلاس کا ذہین ترین بچہ ہے۔ خود کو سنبھال کر وہ پھر وہی سوال اسی طرح دہراتی ہے۔ بچہ دوبارہ انگلیوں پر حساب لگاتا ہے اور نہایت اعتماد کے ساتھ کہتا ہے ’’پانچ‘‘۔ کلاس ٹیچر کو غصہ تو بہت آتا ہے لیکن وہ یہی خیال کرتی ہے کہ شاید اس سے کوئی غلطی ہو گئی ہے۔ وہ اب سیب کے بجائے ’’دو‘‘ گیندیں میز پر رکھ کر بچے سے کہتی ہے کہ اگر ’’دو‘‘ گیندیں میں اور رکھوں تو یہ کتنی ہو جائیں گی۔ بچہ اسی انداز میں انگلیوں پر کچھ حساب لگاتا ہے اور پورے اعتماد کے ساتھ کہتا ہے ’’چار‘‘۔ اس پر کسی حد تک ٹیچر کو غصہ آجاتا ہے اور وہ سیبوں کو دوبارہ اسی انداز میں میز پر رکھ کر بچے سی پوچھتی ہے بتاؤ کتنے سیب ہو جائینگے۔



جواب وہی آتا ہے ’’پانچ‘‘۔ غصے سے لال پیلی ٹیچر بچے کو پرنسپل کے پاس لے جاکر سارا ماجرہ کہہ سناتی ہے۔ پرنسپل بچے کو پیار سے اپنے قریب بلاکر پوچھتی ہے کہ بیٹا آپ ’’گیندوں کی تعداد تو درست بتاتے ہو لیکن آخر سیبوں کی تعداد غلط کیوں بتا تے ہو؟ بچہ کہتا ہے میڈم میں سیبوں کی تعداد بھی ٹھیک ہی بتاتا ہوں، کیسے؟ پرنسپل نے حیرت سے کہا۔ میری امی نے مجھے ایک سیب لنچ میں کھانے کے لیے دیا ہوا ہے۔ ’’چار‘‘ ٹیبل پر رکھے ہوئے، ’’ایک‘‘ میرے بیگ میں۔ ’’پانچ‘‘ ہو گئے نا۔
بظاہر غلط بات بھی درست ہو سکتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دوسروں کا موقف سمجھنے کی کوشش کریں یعنی ’’بات چیت‘‘ کریں، ڈرون مت ماریں اسی میں پاکستان کا فائدہ ہے۔