لیکن اگر یہی اقدامات صوبائی حکومت چند دن پہلے اٹھا لیتی توشاید اسے نہ تو اپوزیشن کی جانب سے تند وتیز اور تلخ تنقید کا سامنا کرنا پڑتا اور نہ ہی عوام اور ذرائع ابلاغ میں حکومت کے تساہل کے حوالے سے کوئی منفی تاثر ابھرتا۔واضح رہے کہ چند دن پہلے تک ڈینگی کے ایشوپرمسلم لیگ(ن) اور جمعیت(ف) کی جارحانہ حکمت عملی نے پی ٹی آئی کی قیادت کو بیک فٹ پر کھیلنے پر مجبور کر دیا تھا لیکن اب جب وزیر اعلیٰ پرویز خٹک صوبائی وزیر صحت شہرام ترکئی اور مقامی ایم پی اے یاسین خلیل کے ہمراہ نہ صرف تہکال کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کر چکے ہیں بلکہ انہوں نے اس ضمن میں بعض ہنگامی اور ضروری اقدامات بھی اٹھا لیے ہیں تو اب اپوزیشن جماعتوں کااس ایشو کومذید اپنی سیاست چمکانے کے لیے استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ڈینگی کے ایشو پر جاری سیاست کو ہوا دینے میں رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کرنے کی کوشش کی جس میں لوگ ڈینگی سے بچاؤ اور اس کے متاثرین کے ساتھ خیرخواہی کی بجائے صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی کی قیادت پر ڈینگی پر قابو پانے میں ناکامی پر اعتراضات کے نشتر چلاتے رہے۔
جب کہ دوسری جانب مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی کا کھل کراس ایشو پر ایک دوسرے کے مد مقابل آ نے سے بھی ڈینگی کا مسئلہ تو پس منظر میں چلا گیا البتہ اس کی وجہ سے صوبے کی اپوزیش کی دیگر جماعتوں کوبھی صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی کے خلاف اپنی بھڑاس نکالنے کا موقع مل گیا۔ ڈینگی جو ایک وباء کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے کے حوالے سے اگرتمام جماعتیں اور فلاحی تنظیمیں بیان بازی کے بجائے مشترکہ طور پر بعض عملی اقدامات پر توجہ دیں تو اس سے نہ صرف اس مصیبت پر قابو پایا جانا ممکن ہے بلکہ اس کے نتیجے میں وہ جانی اور مالی نقصانات بھی کم سے کم کیے جا سکتے ہیں جن سے پشاور کے سیکڑوں گھرانے دوچار ہیں۔ پنجاب سے آنے والی ٹیموں کے حوالے سے یہ بات خوش آئند ہے کہ انہوں نے صوبائی حکومت کے عدم تعاون اور سرکاری ہسپتالوں میں کام کی اجازت نہ ملنے کے باوجود ہا تھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے یا پھر گلے شکوے کر کے واپس لوٹنے کے بجائے ڈینگی سے زیادہ متاثرہ علاقوں تہکال، پشتخرہ، سفید ڈھیری اور اچینی کے علاوہ جمرود خیبر ایجنسی میں عوامی مقامات پر اپنے موبائل کنٹینرز کے ذریعے سیکڑوں متاثرہ مرد وخواتین اور بچوں کو تشخیص اور علاج معالجے کی سہولت کی فراہمی کے علاوہ حفاظتی تدابیر کے متعلق معلومات فراہم کر کے خدمت انسانیت اور قومی رواداری کی ایک اچھی مثال قائم کی ہے
البتہ اس عمل کے دوران صوبائی حکومت کو بائی پاس کرنے اور مسلم لیگ(ن) کی سیاسی قیادت نے ان ٹیموں کی کارکردگی کو جو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی اسے یقیناًکوئی اچھا طرز عمل قرار نہیں دیاجا سکتا۔ اس موضوع پر گفتگوکرتے ہوئے صوبائی حکومت کے اس نقطہ نظرکو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتاکہ صوبائی حکومت کو پنجاب حکومت سے امداد لینے اور ان کے تجربے سے استفادہ کرنے پر تو کوئی اعتراض نہیں تھا البتہ انہوں نے جو طریقہ کار اختیار کیا وہ مناسب نہیں تھااور انہیں یہ سارا کام خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ رابطے اور کو آرڈینیشن کے ذریعے کرنا چاہیے تھا۔بہر حال اس تمام تر بحث سے قطع نظر اس بات میں یقیناً دو آراء نہیں ہو سکتی ہیں کہ ڈینگی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے اور شہریوں کو اس وباء سے تحفظ دینے اور اس کے علاج معالجے اور متاثرہ خاندانوں کی داد رسی کے لیے صوبائی حکومت کے احکامات کی روشنی میں تمام متعلقہ اداروں جن میں محکمہ صحت، بلدیات اور ضلعی انتظامیہ قابل ذکر ہیں کو بغیر کسی مذید کوتاہی کے اپنی زمے داریوں کو پورا کرنا ہوگا۔
لہٰذا اب بھی جب پانی سرسے نہیں گزرااور بعض فوری اور ہنگامی اقدامات کے ذریعے اصلاح احوال کی گنجائش موجود ہے تمام متذکرہ اداروں کو ایک ٹیم بن کر ڈینگی کے پھیلتے ہوئے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر وہ تمام ضروری اقدامات اٹھانے چاہئیں جن کا اٹھایا جانا ضروری اور ناگزیر ہے۔امید ہے متعلقہ ادارے اس حوالے سے نہ تو مذید کسی تساہل اور انتظامی بد نظمی کامظاہرہ کریں گے اور نہ ہی اس خالص انسانی صحت اور زندگی کے مسئلے کو سیاست کی بھینٹ چڑھنے دیں گے۔