شہروں میں گندگی اور کچرے کے ڈھیر کا بڑا حصہ انہی تھیلیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ گٹر اور نالوں کے بند ہوجانے کی بنیادی وجہ بھی یہی تھیلیاں بنتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق مستعمل تھیلیاں ہزار سال تک بھی نہیں گھل پاتیں اور ان کی بدولت ڈینگی، چکن گنیا، ملیریا اور نہ جانے کتنی بیماریاں ہیں جو با آسانی وبائی صورت اختیار کرجاتی ہیں ۔ کراچی بلدیہ کی نا اہلی ایک طرف، بالفرض محال اگر شہر کی صفائی کا معقول انتظام ہوجائے تو بھی ان کے نقصانات سے پیچھا نہیں چھڑایا جاسکتا۔ اس فضلے کو زمین میں دفنایا جائے توزمین کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے جبکہ جلائے جانے سے سانس کے امراض پیدا ہوتے ہیں ۔ سمندر برد کیا جائے تو آبی جانوروں کی حیات خطرات سے دو چار ہو جاتی ہے،
ان حالات میں تھیلیوں کے استعمال کی حوصلہ شکنی اور ان پر پابندی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔ضروری ہے کہ اس حوالے سے عبوری سطح پر آگاہی مہم چلائی جائے۔ دنیا میں جہاں بہت سے ’’ڈے ‘‘ منائے جاتے ہیں وہیں ایک ’’ دن‘‘ اس کے نام بھی کردیا جائے تو اس کو اہم پیشرفت تصور کیا جاسکتا ہے۔ کینیا میں پلاسٹک کی تھیلیاں بنانے والی کمپنیوں نے عدالت سے یہ فیصلہ منسوخ کرنے کی درخواست کی تھی کہ اس سے متعدد افراد کا روزگار متاثر ہوگا لیکن یہ استدعا مستردکردی گئی۔ پاکستان ہوتا تو حکم امتناع مل جاتا ۔