میثا ق جمہوریت کے تخلیق کاروں اور ذمے داروں کو کچھ تو جواب دینا ہوگا کہ یہ کیوں آگے نہیں چل رہا میثاق جمہوریت کی گاڑی جتنا دھکا اسے لگایا گیا، یہ آگے جانے کے بجائے اس سے زیادہ طاقت کے ساتھ پیچھے پلٹ آئی کیا عملی دشواریاں ہیں؟ ایک ایسے پْر آشوب عہد میں جہاں سیاسی کھیل میں گالی اور گولی ملتی ہو۔۔۔ جہاں چہار سو سیاست کے خلاف الزام و دشنام کی آندھیاں چلتی ہوں۔ نفرت وغضب کی چڑھی ہوئی کمانیں مینہ جائے یا آندھی آئے دن رات کسی رہتی ہوں۔ وہاں پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ کے لیے بھی کسی نئی سیاسی صبح کا ڈول ڈالنا سہل کہاں، نواز شریف اور آصف زرداری دونوں انقلاب کے دعوے دار نہیں، تدریجی ارتقا کے پرستار ٹھیرے۔ پھر تو دونوں کو فکری صلابت، ملوکانہ فراست اور جہانگیری سخاوت ایسے اوصاف سے آشنا ہونا چاہیے۔ بھائی ہیں۔۔۔ مگر مولانا فضل الرحمان کی مانند کہ تجھ پر مرتے ہیں اور تجھے ہی مار رکھتے ہیں۔ پاکستانی سیاست پر اول روز سے ہی نا آسودگی کا سایہ گہرا رہا۔ سوچنا چاہیے کہ یہاں نئی زمین یا کوئی نیا آسماں کیوں بن نہ سکا۔ گو نواز شریف نے اپنے تجربے، مشاہدے اور نظریے سے جِلا پا کر سیاست میں درست طرز کا ادراک کیا ہے۔ آصف علی زرداری کے زخم بھی ہیں دیکھتے ہیں کہ مگر اس سے کب، کیوں اور کیسے بھرتے ہیں؟
عباس شریف کے انتقال پر جب آصف علی زرداری تعزیت کے لیے جاتی امرا آیا چاہتے تھے، تب نواز شریف نے ملنے سے کیوں انکار کیا تھا؟ میمو گیٹ اور گیلانی کی رخصتی پر انہوں نے معتدل اور مروج سیاست کیوں کی؟ یہ بھی مت بھولنا چاہیے کہ کل 62,63 پر سیاست مسلم لیگ نے کی تھی تو آج پی پی خود کرنے چلی ہے۔ پھر دونوں میں امتیاز کیا ہے؟ دونوں میں کون ہے جو سر اٹھا اور سینہ پھیلا کر اپنی برتری کا اظہار کرے؟ کون ہے جو فراست یا سخاوت کا ثبوت پیش کرے؟ نواز شریف کہتے رہے ہیں وزارت عظمیٰ پھولوں کی سیج نہیں۔ جی ہاں کانٹوں کا بستر ہے اور راستہ بھی کانٹوں سے اٹا ہوا۔ کانٹے تو پھر کانٹے ہیں کبھی دامن سے الجھیں گے اور کبھی پاؤں میں چبھیں گے۔ مقصد اور منزل کی خلش جو قلب میں پیوست ہے اس کی بھی کس کو خبر! سیاسی زندگی تو بغیر کسی مقصد کے بسر ہوتی بھی نہیں۔ یہ ایسا اٹکاؤ رہا کہ اس کے ساتھ کوئی اور لگاؤ ہوسکتا نہیں۔ سیاسی زندگانی تو کوئی بندھن مانگتی، یہ بندھن آئین سے ہی ہوسکتا ہے جو کہتا ہے کہ ریاست اور اس کے مفاد کو عزیز رکھا جائے۔