سیاسی اچھوت

283

zc_Nasirعام مشاہدہ یہی ہے کہ سیاست دانوں کی زبان پر جو ہوتا ہے، دل میں نہیں ہوتا اور جو دل میں ہوتا ہے، زبان پر نہیں ہوتا۔ ان دنوں سابق صدر آصف علی زرداری نااہل ہونے والے وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف خوب بول رہے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ زرداری صاحب میاں نواز شریف کو اچھوت سمجھ رہے ہیں، ہاتھ تک ملانے کے روادار نہیں، موصوف کو یہ شکوہ بھی ہے کہ وہ نواز شریف کے بھائی کی وفات پر تعزیت کے لیے جاتی امرا جانا چاہتے تھے مگر میاں نواز شریف نے ملاقات ہی سے انکار کردیا۔ یہ ساری باتیں خبروں میں رہنے کے لیے ہیں۔ زرداری صاحب کو پاکستان آنے کا حوصلہ میاں نواز شریف کی سیاسی کمک کے طفیل ہی ممکن ہوا ہے، انہیں اس حقیقت کا ادراک ہے کہ میاں نواز شریف کے بعد ان کی باری ہے اگر عدلیہ نے زیر سماعت مقدمات کی شنوائی کی تو 62-63 کا اطلاق ان پر بھی ہوسکتا ہے، وہ بھی تاحیات نااہل ہوسکتے ہیں۔



قانون کے ماہرین کی اکثریت کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کی نااہلیت نوشتہ تقدیر ہے ان کے اہل ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی معزولی کے دوران بھی قانون کے ماہرین کی یہی رائے تھی مگر وہ بحال ہوگئے اور دل کھول کر سرکاری افسران اور وکلا کو بے نقط اوراپنی مرضی کے فیصلے سناتے رہے۔ میاں نواز شریف کے معاملے میں بھی انہونی ہوسکتی ہے کہ وطن عزیز میں انہونیاں ہوتی رہتی ہیں، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آصف علی زرداری پاکستان کے صدر مملکت بھی بن سکتے ہیں۔ پرویز اشرف کا وزیراعظم بننا بھی ایک سیاسی معجزہ ہے۔ میاں نواز شریف اور زرداری ایک ہی کشتی کے سوار ہیں ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کے بغیر کوئی سیاسی معرکہ سر نہیں کرسکتے۔ 62-63 کا خاتمہ ممکن نہیں ترمیم ہوسکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا فرمان ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 62-63 کو ختم نہیں ہونے دیں گے مگر یہ ایک سیاسی بیان سے زیادہ کچھ نہیں، ان کی شرائط مان لی گئیں تو انہیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔



آصف علی زرداری بظاہر میاں نواز شریف سے گریزاں دکھائی دے رہے ہیں مگر یہ سب دکھاوا ہے۔ اب کوئی سیاسی زار، راز نہیں رہا۔ الیکٹرونک میڈیا نے عوام کو سیاسی طور پر اتنی آگاہی دے دی ہے کہ وہ سیاست دانوں کے عزائم سے واقف ہوچکے ہیں۔ کون کیا ہے؟ کون کیا کررہا ہے؟ کس کے کس سے رابطے ہیں؟۔
آئین میں تبدیلی کے لیے یا بعض ترامیم کے لیے زرداری صاحب میاں نواز شریف کو سیاسی کمک دینے پر دل و جان سے راضی ہیں اگر نون لیگ الیکشن میں جیت جاتی ہے تو زرداری صاحب کو صدر مملکت بنادیا جائے گا اور اگر پیپلز پارٹی جیتتی ہے تو بلاول وزیراعظم اور زرداری صاحب صدر مملکت ہوں گے۔ سودا بُرا نہیں سو، زرداری صاحب کو کوئی اعتراض نہیں اور نہ وہ کسی کے اعتراض کو خاطر میں لائیں گے۔



افواہ ہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کو جسٹس آصف کھوسہ کی صداقت سخت ناگوار گزری ہے۔ انہیں اعتراض ہے کہ کھوسہ صاحب نے انہیں نواز شریف کا وفادار کیوں کہا؟۔ حیرت ہے نون لیگ اپنے قائد کو گاڈ فادر کہنے پر ناراض نہ ہوئی اور نہ سسلین مافیا کہنے پر غصہ آیا۔ زرداری صاحب میاں نواز شریف کی جانب سے صدر مملکت بنانے کی پیش کش پر خوش تو ہیں مگر بھروسا کرنے پر آمادہ نہیں کیوں کہ وہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے انجام سے واقف ہیں، انہوں نے مولانا فضل الرحمن کی ضمانت طلب کی ہے مگر مولانا ضامن ضامن کھیلنا پسند نہیں کرتے کیوں کہ وعدوں کے معاملے میں دونوں ہی کا ریکارڈ خراب ہے۔