ان میں ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ پاناما پیپرز میں نواز شریف کا تو نام نہیں تھا لیکن شہباز شریف کا نام ضرور ہے اور جب حدیبیہ پیپر ملز کے اسکینڈل کی پرتیں اتریں گی تو ان کے خلاف اور بھی بہت کچھ سامنے آئے گا۔ ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں پر پولیس کی اندھا دھند فائرنگ کے واقعے میں بھی مبینہ طور پر شہباز شریف اور پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ کا نام ہے۔ چنانچہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اس سانحے پر جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو سامنے لایا جائے۔ یہ مطالبہ شہباز شریف کی پریس کانفرنس میں بھی کیاگیا جس پر وہ کانفرنس ختم کرکے اٹھ گئے۔ شہباز شریف نے خود پر الزام لگنے پر اے آر وائی اور پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کو نوٹس بھجوایا ہے۔ شہباز شریف کی طرف سے زور اس پر ہے کہ الزام ثابت کیا جائے اور یہ ایک مشکل کام ہے۔ 19 سال میں آصف زرداری پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا۔ اے آر وائی کا موقف ہے کہ الزام اس نے نہیں لگایا بلکہ چین کے ریگولیٹر نے میٹرو بس منصوبے میں کرپشن کی نشاندہی کی تھی اور ایس ای سی پی نے 7 ماہ سے اس معاملے کو دبا کر رکھا ہوا تھا۔
اب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے مبینہ کرپشن کا نوٹس لے کر تحقیقات شروع کردی ہے۔ لیکن یہ معاملہ جلد ن نمٹنے کا امکان نظر نہیں آتا۔ ترجمان پنجاب حکومت ملک محمد احمد کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت میٹرو معاملے پر تحقیقات کرانے کے لیے تیار ہے اور عمران خان کہتے ہیں کہ شہباز شریف کی کرپشن کے معاملات نیب میں لے کر جائیں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے ملتان میٹرو منصوبے میں پونے دو ارب روپے کی کرپشن کی ہے۔ لیکن نیب کی کارکردگی کے بارے میں تو پہلے ہی عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ نے بڑی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔اس کہانی کا اہم نکتہ یہ ہے کہ چینی کمپنی کی شریک کار پاکستانی کمپنی کیپیٹل انجینئرنگ اینڈ کنسٹرکشن کا کوئی وجود نہیں۔ یہی بات شہباز شریف نے پریس کانفرنس میں بتائی لیکن پھر چینی کمپنی جیانگ زو یابیٹ کے کھاتے میں ایک بڑی رقم کہاں سے آئی؟ معاملے کی شفاف تحقیقات ہونی چاہیے۔