بے نظیر قتل کیس‘ مشرف کی جائیداد ضبط‘ 2پولیس افسران کو قید

618
راولپنڈی: انسداد دہشت گردی عدالت کے جج اصغر خان بے نظیر قتل کیس کا فیصلہ سنانے کیلیے اڈیالہ جیل آرہے ہیں

راولپنڈی( خبرایجنسیاں +مانیٹرنگ ڈیسک) راولپنڈی میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کے فیصلے میں زیر حراست 5مرکزی ملزمان کو بری کرتے ہوئے2 پولیس افسران کو مجرمانہ غفلت برتنے پر 17 برس قید اور جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔عدالت نے اس وقت کے صدرمملکت اور فوجی سربراہ جنرل (ر)پرویز مشرف کو بھی اس مقدمے میں اشتہاری قرار دیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر 1کے جج محمد اصغر خان نے جمعرات کو اڈیالہ جیل میں واقعے کے تقریباً 10برس بعد اس مقدمے کا فیصلہ سنایا۔اس مقدمے میں گرفتار پانچوں ملزمان اڈیالہ جیل میں تھے اور سیکورٹی وجوہات کی بنا پر انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا تھا، اس لیے اس مقدمے کا فیصلہ جیل میں ہی سنایا گیا۔



فیصلہ سناتے ہوئے جج نے ان پانچوں ملزمان اعتزاز شاہ، شیر زمان، حسنین گل، رفاقت حسین اور قاری عبدالرشید کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیاتاہم سابق ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کو مجموعی طور پر 17، 17 سال قید اور 5,5لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی گئی ہے۔ان افسران کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 119 کے تحت 10،10 سال جبکہ 201 کے تحت 7,7سال قید کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ جرمانے کی عدم ادائیگی پر انہیں مزید 6,6 ماہ قید بھگتنا ہوگی۔یہ دونوں افسران ضمانت پر تھے اور عدالتی فیصلے کے بعد ان دونوں کو احاطہ عدالت سے گرفتار کر لیا گیا۔سعود عزیز بینظیر بھٹو کے قتل کے وقت راولپنڈی پولیس کے سربراہ تھے جبکہ خرم شہزاد راولپنڈی کے علاقے راول ٹاؤن کی پولیس کے انچارج تھے۔ استغاثہ نے ان دونوں پر بینظیر کی قتل کی سازش میں ملوث ہونے اور خودکش حملہ آور کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کیے تھے۔



سعود عزیز پر الزام تھا کہ نہ صرف انہوں نے بینظیر بھٹو کی سیکورٹی پر تعینات پولیس افسر اور اہلکاروں کو واقعے سے قبل اس جگہ سے کورال چوک جانے کو کہا بلکہ راولپنڈی جنرل اسپتال کے ڈاکٹر مصدق کو بینظیر کا پوسٹ مارٹم بھی نہیں کرنے دیا تھا۔سابق ایس پی خرم شہزاد پر الزام تھا کہ انہوں نے اس واقعے کے کچھ دیر بعد ہی جائے حادثہ کو دھونے کا حکم دیا تھا جس سے اہم ثبوت ضائع ہوئے۔ عدلت نے اپنے فیصلے میں پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دے کران کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے ان کی جائداد بھی ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔اس مقدمے میں سرکاری وکیل نے کہا ہے کہ وہ مرکزی ملزمان کی بریت کا فیصلہ عدالتِ عالیہ میں چیلنج کریں گے جبکہ سعود عزیز اور خرم شہزاد کے وکلا نے بھی فیصلہ چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔



یاد رہے کہ بینظیر بھٹو کو دسمبر 2007ء میں راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر فائرنگ اور خودکش دھماکے کی نذرکردیا گیا تھا ‘اس سانحہ میں ان کے 23کارکنان بھی جاں بحق ہوئے تھے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ مقتولہ کے شوہرآصف علی زرداری یا ان کے ورثائمیں کسی کو بھی اس اہم مقدمے میں فریق نہیں بنایا گیاجب کہ فیصلے کے وقت بھی پیپلزپارٹی کا کوئی سرکردہ رہنما عدالت میں موجود نہیں تھا تاہم ترجمان پیپلزپارٹی نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ انصاف نہیں ہوا ، القاعدہ اور طالبان دہشت گردوں کے خلاف ثبوت دیے گئے تھے لیکن ان کی بریت بہت حیران کن ہے اور متعدد سوالات اٹھاتی ہے، بتایا ہی نہیں گیا کہ پولیس افسران کو اہم شہادتیں ضائع کرنے کا حکم کس نے دیا تھاجب کہ سب کو معلوم ہے پرویز مشرف نے بے نظیر کو دھمکی دی تھی۔



دوسری جانب بینظیر بھٹو کے بچوں نے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قراردے دیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ قاتلوں کی رہائی صرف ناانصافی ہی نہیں بلکہ خطرناک بھی ہے جبکہ پارٹی قانونی آپشنز پر غور کرے گی۔آصفہ زرداری کا اپنے ٹویٹ میں کہنا تھا کہ اصل قاتل اب بھی آزاد ہیں،انصاف اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک پرویز مشرف اپنے جرائم کا حساب نہیں دے دیتے،عدالتی فیصلے کے بعد بھی ہم انصاف کے منتظر ہیں۔بختاور نے بھی اپنے ٹویٹ میں فیصلے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا لیکن اصل دہشت گردوں کو بری کردیا گیا جو شرمناک بات ہے۔



علاوہ ازیں بے نظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکرٹری ناہید خان نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہ کیس کا فیصلہ کیسے سنایا گیا، مجھے سے کبھی مقدمے سے متعلق بیان ہی نہیں لیا گیاجب کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کو اس کیس میں شامل نہیں کیا گیا۔