بارش سے نقصانات کے ذمے دار وزیر بلدیات، میئر اور کمشنر کراچی ہیں 

886
کراچی میں شدید بارش کے باعث نشیبی علاقے زیرآب آگئے‘ گاڑیاں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں

کراچی (تجزیہ: محمد انور) کراچی میں بارشوں کا سلسلہ جاری ہے ،محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ عبدالرشید کا کہنا ہے کہ ان کی پیشگوئی کے مطابق ’’اربن فلڈ‘‘ کراچی میں آچکا ہے ۔اربن فلڈ سے مراد ’شہری سیلاب‘‘ ہے جو بارش کے پانی کی نکاسی کا نظام نہ ہونے یا کام نہ کرنے کی وجہ سے سیلابی شکل میں آتا ہے ،پیشگی اطلاع کے باوجودبلدیہ عظمیٰ کراچی ، 6 ضلعی بلدیاتی اداروں اور حکومت سندھ نے بارش اور شہری سیلاب کے نقصانات سے نمٹنے کے لیے اقدامات نہیں کیے ۔ میئر اور دیگر بلدیاتی اداروں کے چیئرمین بھی ماضی کی طرح ’’الرٹ ‘‘ نظر نہیں آتے۔ جمعرات کو کراچی میں وہی ہوا جس کی محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کی تھی ۔ شہرمیں ’’اربن فلڈ ‘‘ آنے کے بعد ایدھی فاؤنڈیشن نے اپنی ایمبولینس سروس کے ساتھ کشتی سروس بھی شروع کردی ہے ، جبکہ فوج اور رینجرز کے جوان بھی سندھ حکومت کی درخواست پر حرکت میں آگئے ۔تاہم بلدیاتی قیادت اور میئر کراچی و دیگر اداروں کے منتخب نمائندے اپنی ڈگر پر ہیں ۔



وہ اب بھی بیان بازی اور میڈیا پبلسٹی پر توجہ دے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کراچی میں برساتی پانی کی نکاسی کا نظام تو اب نہیں رہا، برساتی نالے سیوریج نالوں میں تبدیل ہوچکے ہیں ، ان کے اوپر بھی تجاوزات قائم ہیں۔ بلدیہ کراچی نالوں کی صفائی پر ہر سال کم از کم 22کروڑ اور زیادہ سے زیادہ ایک ارب خرچ کرتی ہے ۔ بلدیہ عظمیٰ کے 27 ارب روپے کے سالانہ بجٹ میں سے 13ارب روپے ترقیاتی کاموں اور دیکھ بھال کے ناموں پر خرچ کیے جاتے ہیں۔کے ایم سی کا خلاف ضابطہ چلنے والا محکمہ ’’میونسپل سروسز‘‘ رواں سال بھی نالوں کی صفائی کے لیے ایک ارب 50کروڑ روپے خرچ کرچکا ہے تاہم گجر نالہ، محمود آباد اور نہر خیام پر خصوصی طور پر خرچ کیے جانے والے ایک ارب 42 کروڑ روپے کے باوجود نالے صاف نہیں کیے جاسکے۔ یہی حال ضلعی بلدیاتی اداروں کی حدود میں واقع چھوٹے نالوں کا بھی رہا جن کی صفائی کے نام پر مجموعی طور پر کروڑوں روپے خرچ تو کیے گئے لیکن نالے صاف نہیں ہوسکے اور فنڈز کرپشن کی نذر ہوگیا۔



ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے نالوں کی صفائی کے نام پر فنڈز کی خورد برد میں صرف کے ایم سی کے افسران ملوث نہیں بلکہ صوبائی حکومت کی شخصیات کا ’’ شیئر ‘‘ بھی ہوا کرتاہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت مذکورہ فنڈز کے استعمال کے حوالے سے کسی قسم کی انکوائری تک کرانے میں دلچسپی نہیں رکھتی ۔ دوسری طرف میئر کراچی بدعنوان افسران کے خلاف کارروائی کے لیے کس حد تک خواہشمند ہیں اس کا اندازہ بھی اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کی طرف سے معطل کیے جانے والے سینئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز مسعودعالم کو وہ اپنے ساتھ نہ صرف اجلاس میں بیٹھنے کا موقع دیتے ہیں بلکہ ان کے ہمراہ ہی وہ نظر آتے ہیں۔ کے ایم سی کے افسران کی بڑی تعداد برملا اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ صرف نالوں کی صفائی ہی نہیں بلکہ میونسپل سروسز کے تمام 11 شعبوں کی تباہی کے ذمے دار بھی وہی ہیں۔



محکمہ میونسپل سروسز کی نااہلی کا اندازہ تو اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ لیاری ایکسپریس وے کے جاری کاموں کے لیے روزانہ ہزاروں روپے کرائے پر حاصل کی گئی مشینری کو نہیں ہٹایا گیا اور یہ مشینیں بارش کے پانی میں بہہ گئیں جس کا نقصان اب کے ایم سی کو بھرنا پڑے گا۔حالیہ بارش نے صرف منتخب بلدیاتی اداروں کی ہی نہیں بلکہ کراچی کی انتظامیہ کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھادیا ہے۔کمشنر کراچی اعجاز احمد خان نے بارش سے ہونے والے نقصانات سے بچاؤ کے لیے اجلاس تو کیے لیکن ان کے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کراسکے ۔حال ہی میں کے ایم سی اور حکومت سندھ کے افسران میں نہر خیام پر خرچ کیے جانے والے 60 کروڑ روپے کے حوالے سے سرد جنگ ہوئی ۔نتیجے میں مسعودعالم کو قربانی کا بکرا بناکر انہیں معطل کیا گیا۔ نہر خیام کے لیے خصوصی طور پر 60 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ، اس مد میں سب نے خوب کمیشن بھی پکڑا مگر آج نہر خیام کے آس پاس کی صورتحال ایسی ہے جیسے کہ یہاں برساتی پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام ہی نہیں ہے۔



گجر نالے کے مقام پر بھی بارش سے شگاف پڑ چکا ہے اور قرب و جوار کی بستیوں میں پانی سیلاب کی طرح داخل ہورہا ہے۔ شہر والوں کے لیے یہ بات بھی حیرت انگیز ہوگی کہ بلدیہ کراچی نے گزشتہ 2 سال کے دوران نالوں کی صفائی کی مشینری کے کرائے کی مد میں ساڑے 3 ارب روپے خرچ کیے ۔ لیکن نالے صاف نہیں ہوسکے ،مگر نہ تو حکومت کی جانب سے حساب مانگا جاتا ہے اور نہ ہی اینٹی کرپشن اوروزیراعلیٰ کی انسپکشن ٹیم اس کا کوئی نوٹس لیتی ہے۔ صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو کی کارکردگی کا اندازہ تو ان کے اپنے دفتر سے لگایا جاسکتا ہے جو بارش کے پانی کی زد میں آچکا ہے ۔ اس تمام صورتحال کا تقاضا ہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو کراچی میں ہنگامی حالت کا اعلان کرکے صوبائی وزیر اور میئر کراچی کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ بہتر تو یہ ہوگا کہ صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو اور میئر کراچی ازخود اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے استعفا دے دیں۔