عوامی جمہوریہ چین کے اس اعلان کے بعد کہ بھارتی فوج واپس اپنی حدود میں چلی گئی ہے ایشیا پر منڈلاتے خوفناک جنگ کے بادل چھٹ گئے ہیں۔ دوماہ قبل بھارتی فوج نے بھوٹان کی حکومت کی درخواست کو بہانہ بنا کر ایک ایسے علاقے میں پیش قدمی کی تھی جو چین اور بھوٹان کے درمیان متنازع ہے۔ چینی فوج اس علاقے میں ایک سڑک کی تعمیر کر رہی تھی اور بھارت اس سڑک کو علاقے میں چین کی دفاعی پوزیشن کے مضبوط ہونے کے خوف کا شکار تھا اور اس لیے بھوٹان حکومت کی درخواست کو بہانہ بنا کر علاقے میں پیش قدمی کر بیٹھا اور اپنی اس حرکت کے لیے مختلف تاویلات، حیلوں اور بہانوں اور کہہ مکرنیوں کا سہارا لینے لگا۔ وہ یہ بات فراموش کر بیٹھا کہ اس کا مقابلہ عوامی جمہوریہ چین جیسی صبر واستقامت کا پہاڑ کہلانے والی فوج سے ہے۔ چین نے دوکلام کے علاقے سے بھارتی فوج کے غیر مشروط انخلا کے ایک نکتے پر توجہ مرکوز رہی۔ ان دو ماہ میں دونوں افواج کے درمیان ہاتھا پائی اور کھینچا تانی کی وڈیو کلپس بھی عام ہوئیں مگر مجموعی طور پر چین کا پلہ بھاری دکھائی دیتا تھا۔ دونوں افواج آنکھوں میں آنکھیں ڈالے رہیں۔ چینی میڈیا بار بار بھارت کو چین بھارت جنگ کی یاد دلاتا رہا اور یہ بتاتا رہا کہ بھارت ماضی کے اس سبق کو نہ بھولے۔ چین اس سے کئی گنا زیادہ طاقت اور وسائل رکھتا ہے۔ چینی قیادت نے بھارت کی ہر چال اور ہر جال کو ناکام بنایا اور دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ چند قدم کے فاصلے پر دکھائی دی۔
آخر کار جولائی کے مہینے میں بھارت نے اس مسئلے کو سفارتی انداز سے حل کرنے کا راستہ اختیار کیا۔ بھارتی وزیرا عظم نریندر مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے چین کا دورہ کیا جہاں ان کا چین کے اسٹیٹ قونصلر ینگ جیچی سے دو جملوں کا دلچسپ مکالمہ بھارت کے ایک اخبار میں رپورٹ ہوا۔ چینی نمائندے نے مسٹر دووال سے دوٹوک انداز میں پوچھا کہ کیا دوکلام کا علاقہ آپ کا ہے؟ مسٹر دوول نے ہاں یا نہیں میں جواب دینے کے بجائے جواب میں سوال داغ دیا کہ کیا ہر متنازع علاقہ چین کی ہی ملکیت ہوتا ہے؟۔ ظاہر ہے یہ علاقہ بھارت کا تو سرے سے نہیں تھا کیونکہ علاقہ چین اور بھوٹان کے درمیان متنازع ہے اور بھارت بھوٹان کے ساتھ ایک معاہدے کا سہارا لے کر اس علاقے میں گھس آیا۔ چین کا دعویٰ تو یہی ہے علاقہ اس کا ہے مگر بھارت یہ دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔ بھارت کے اس موقف کو فیصلہ کن دھچکا اس وقت لگا کہ جب چین کے ایک اخبار نے اس تنازعے کے لیے کشمیر کی مثال دی۔ اخبار نے لکھا تھا کہ اگر اسی اصول کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع علاقے میں پاکستان کی درخواست پر چین فوجی پیش قدمی کرے تو کیسا رہے گا؟ یہ شاید بھارت کے حوصلے توڑ دینے والا نکتہ اور فیصلہ کن لمحہ تھا۔ اس جنگ میں ایک اور فریق پر دنیا کی نظریں جمی ہوئی تھیں وہ تھا چین کا قریبی اتحادی پاکستان۔
پاکستان کے اپنے بھی بھارت کے ساتھ سنگین اختلافات چل رہے ہیں جن میں کشمیر کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل ایک بھارتی جنرل نے یہ کہہ کر کہ ان کا ملک ڈھائی محاذوں پر لڑنے کے لیے تیار ہے اسی صورت حال کی جانب اشارہ کیا تھا۔ ڈھائی محاذوں سے بھارتی جنرل کی مراد چین پاکستان اور اندرونی بغاوت کی تحریکیں تھیں۔ بھارت اور امریکا نے ہر ممکن انداز میں یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان چین اور بھارت کی ممکنہ جنگ میں 1962 کی جنگ کی طرح غیر جانبدار رہے گا یا اپنے قریبی اتحادی کی مدد کے لیے بھارت کے خلاف ایک نیا محاذ کھولے گا۔ یوں لگتا ہے کہ وہ یہ حقیقت جان گئے اس بار پاکستان امریکی دباؤ میں ایسے کسی ممکنہ تصادم میں غیر جانبدار رہنے کے بجائے کشمیر کے محاذ پر پیش قدمی کی کوشش کرے گا۔ اس منظر نامے کے واضح ہونے کے بعد بھارت کے پاس دوکلام سے دُم دباکر بھاگنے اور مونچھ نیچی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ دوکلام سے بھارت کے رخت سفر باندھنے کے لیے ڈُم دبا کر واپسی کا محاورہ ایک بھارتی ٹی وی چینل پر بحث کے دوران ایک کشمیری نمائندے نے استعمال کیا۔ بھارت اینکر اور نمائندے اس اصطلاح پر بہت چیں بہ جبیں ہوئے مگر شاید حقیقت یہی تھی۔ دوکلام کی دو ڈھائی ماہ کی کہانی سے یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ چانکیہ کا پیروکار بھارت صرف طاقت کی زبان سمجھتا اور طاقت کو سلامی پیش کرتا ہے۔ پاکستان کو بھارت سے اپنا حق لینے کے لیے اس اصول کو مدنظر رکھنا چاہیے۔