میاں نواز شریف کی مہارت

426

zc_Nasirکسی بھی ملک میں جمہوریت کا استحکام عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی آزادی اور خود مختاری سے مشروط ہوتا ہے جس ملک میں سیاسی جماعتوں کی تعداد سیکڑوں میں ہو وہاں جمہوریت پنپ ہی نہیں سکتی۔ محترمہ کلثوم نواز وزیراعظم میاں نواز شریف کی نااہلی کے باعث خالی ہونے والی نشست سے انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں اور اس وقت لندن کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ وہ الیکشن جیت کر ملک و قوم کی کیا خدمت کرسکتی ہیں مگر یہ بات یقینی ہے کہ وہ ملک و قوم پر بوجھ بن جائیں گی۔ الیکشن کمیشن کی قانونی اور اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ بیمار امیدوار کے کاغذات نامزدگی منظور نہ کرے۔ ارکان اسمبلی خود کو قوم کا خادم کہتے ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف تو خود کو خادم اعلیٰ کہتے ہیں، خادم کے لیے صحت مند ہونا ضروری ہوتا ہے ورنہ وہ قومی خزانے پر بوجھ بن جاتا ہے اس معاملے میں عدالت عظمیٰ کو ازخود نوٹس لینا چاہیے۔



امریکی صدر مسٹر ٹرمپ کے حالیہ بیان پر حکمرانوں نے کسی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا مگر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قومی جذبات کی بھرپور عکاسی کی۔ قوم حکمرانوں سے ایسے ہی دبنگ لہجے کی توقع رکھتی ہے۔ کہتے ہیں، ہمیں مالی اور فوجی امداد کی ضرورت نہیں، امریکا ہماری قربانیوں کا اعتراف کرے، ہم پر اعتماد کرے، قوم کا حقیقی نمائندہ وہی ہوتا ہے جو قومی جذبات کی نمائندگی کرے۔ تاحیات نااہل ہونے والے وزیر اعظم میاں نواز شریف عدلیہ کے بارے میں بیانات دینے میں خاصے بے باک اور دبنگ ہوتے جارہے ہیں مگر امریکی صدر کے بیان پر خاموش ہیں، یہ خاموشی کہیں سفارت کاری تو نہیں۔
معزول چیف جسٹس چودھری افتخار کی تحریک چند دن بھی نہیں چل سکتی تھی، میاں نواز شریف اور دیگر سیاست دانوں نے بیساکھیاں فراہم کیں تو خوب دوڑی مگر وکلا برادری اسے اپنی کامیابی سمجھ بیٹھی۔



لاہور ہائی کورٹ کے ایک مقدمے میں وکلا نے قانون کا سہارا لینے کے بجائے احتجاج کی راہ اختیار کی سو، پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا کیوں کہ وکلا میاں نواز شریف کی حمایت کے سوا دیگر سیاست دانوں کی حمایت سے محروم رہے لیکن یہ طے ہے کہ میاں نواز شریف اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے۔ میاں نواز شریف چودھری افتخار کی طرح بحالی نہیں چاہتے وہ تاحیات نااہلی سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری بھی تاحیات نااہلی کے بجائے چار پانچ سال کی نااہلی پر رضا مند ہوجائیں اور کہیں گے کہ ہم نے نواز شریف کی نہیں پارلیمنٹ کی حمایت کی ہے۔ جمہوریت کے استحکام کی بات کی ہے یہ سب ایک ہیں ان کا مطمح نظر تجوریاں بھرنا ہے ان کی فطرت اور ان کا سیاسی نظریہ ایک ہے ان کے سیاسی نصب العین کی عکاسی بہت پہلے جوزف اسٹالن نے کی تھی۔



پارلیمنٹ کے ایک اجلاس میں وہ اپنے ساتھ ایک مرغ لے کر آیا اور اس کے پر نوچنا شروع کردیے، یہاں تک کہ وہ بے بال و پر ہوگیا، پھر اس نے جیب سے کچھ دانے نکال کر مرغ کے آگے ڈال دیے، دانے ختم ہوگئے، تو مرغ اسٹالن کے پیروں میں بیٹھ گیا، اسٹالن نے اپنے کامریڈ کی طرف دیکھا اور کہا یہ ہے جمہوری سرمایہ دارانہ نظام۔ جمہوری سرمایہ دارانہ ریاستوں کے عوام اس مرغ کی طرح ہوتے ہیں، حکمران عوام کا سب کچھ لوٹ لیتے ہیں اور پھر لوٹے ہوئے مال میں سے کچھ عوام کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں اور عوام ان کی مسیحائی کے گن گانے لگتے ہیں اُن حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ میاں نواز شریف مرغ کے بال و پر نوچنے میں مہارت رکھتے ہیں اور لوٹے ہوئے مال سے عوام کو خوش کرنے میں بھی ماہر ہیں۔