آلائشوں اور تعفن کے باعث وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ

926
ملیر: لب سڑک پر آلائش کی وجہ سے تعفن اٹھ رہاہے، موٹرسائیکل سوار منہ پر ہاتھ رکھے گزررہے ہیں

کراچی (رپورٹ: قاضی عمران احمد) بلدیاتی اداروں کی نااہلی کے باعث عیدالاضحی کے تیسرے دن بھی شہر کے بیشتر علاقوں سے آلائشیں اور کچروں کے ڈھیر صاف نہ کیے جا سکے اور نہ ہی جراثیم کُش اسپرے مہم شروع کی جا سکی ہے، شہر کی فضا میں تعفن بڑھنے لگا، طبی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شہر خوف ناک متعدی و وبائی امراض کی لپیٹ میں آ سکتا ہے، یومیہ 15 لاکھ سے زائد مریض اسپتالوں سے رجوع کرنے لگے، شہر میں لگے جا بہ جا کچرے کے ڈھیروں کو محفوظ طریقے سے منتقل کرنے اور اٹھانے کے بجائے گلیوں، بازاروں اور آبادیوں کے درمیان ہی آگ لگا دی جاتی ہے جو ماہر امراض آنکھ، ناک اور گلے اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے رہنما ڈاکٹر قیصر سجاد کے مطابق شہریوں کو جلدی بیماریوں، دمہ، سانس کی بیماریوں، آنکھوں کے امراض، آنکھوں میں جلن وغیرہ، گلے، آنتوں کی سوزش، ناک کے امراض، پھیپھڑوں کی بیماریوں کے علاوہ پھیپھڑوں کے کینسر میں بھی مبتلا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔



پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مرزا علی اظہر کا کہنا ہے کہ صحت کا معاملہ ارباب اختیار و اقتدار کے نزدیک کبھی کوئی سنگین مسئلہ نہیں رہا، ایک طرف شہریوں کے لیے طبی سہولتوں کا فقدان ہے تو دوسری جانب بلدیاتی اداروں کی نا اہلی اور غفلت شہریوں کی طبی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر رہی ہے۔ ہر عید الاضحی سے قبل یہ معمول بن چکا ہے کہ کانگو نامی وائرس سے ڈرا کر شہریوں کو سنّت ابراہیمی سے دور رکھنے کی سازش کی جاتی ہے، عید قرباں کے اول روز سے آلائشوں، کچروں اور گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر جمے خون کی صفائی میں غفلت اور کوتاہی بھی شہریوں کے لیے سوہان روح بن جاتی ہے۔ دعوے، اعلانات اور بیانات کے برعکس عملاً صورت حال یہ ہے کہ شہر کے اکثر علاقوں میں عید الاضحی کو گزرے تین دن ہو گئے ہیں لیکن اب بھی گلیوں اور شاہراہوں کی اطراف کی اور درمیانی فٹ پاتھوں پر پڑے کچرے کے ڈھیروں نے ماحول کو انتہائی متعفن بنا رکھا ہے اور ان کے قریب سے گزرنا شہریوں کے لیے محال ہو چکا ہے۔



ڈاکٹر مرزا علی اظہر کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ ہونے والی بارشوں نے پہلے ہی نظام زندگی درہم برہم کر رکھا تھا اور اس سے پھیلنے والی گندگی صاف ہی نہ کی جا سکی تھی کہ عیدالاضحی کی آمد اور سنت ابراہیمی کی تکمیل کے بعد نکلنے والی آلائشوں نے ماحول کو بلدیاتی اداروں کی غفلت اور نا اہلی کے باعث شدید ترین خطرات سے دو چار کر دیا ہے اور شہر بھر میں بارشوں اور سیوریج کے گندے پانی کے ملاپ، کچرے کے ڈھیروں اور آلائشوں کی وجہ سے ڈینگی، چکن گنیا، ملیریا، ٹائی فائیڈ اور گیسٹرو کے مریضوں میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے اور یہ تمام تر صورت حال انتہائی خطرناک ہے۔ ڈاکٹر مرزا علی اظہرکے مطابق اگر اس تمام گندگی کو فوری طور پر صاف کر کے جراثیم کُش اسپرے مہم نہیں چلائی گئی تو شہر میں خطرناک متعدی و وبائی امراض پھوٹ پڑیں گے اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد ان کی لپیٹ میں آ سکتی ہے اور ان میں اکثریت معصوم بچوں اور بوڑھوں کی ہو سکتی ہے۔



دوسری جانب ان بلدیاتی اداروں کی نااہلی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ طبی ماہرین کے مطابق ایک محتاط اندازے کے مطابق ان امراض میں مبتلا ہونے والے 15 لاکھ سے زائد مریض یومیہ سرکاری، نیم سرکاری، نجی اسپتالوں، کلینکوں اور ڈسپنسریوں سے رجوع کر رہے ہیں۔ میئر اور ڈپٹی میئر سمیت بلدیاتی اداروں کے چیئرمینوں کے دعووں کے برعکس عملی صورت حال یہ ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں سے اب تک آلائشیں اٹھائی نہیں جا سکی ہیں، ریڑھی اور ابراہیم حیدری کے گوٹھوں کے گرد و نواح میں آلائشیں تاحال کھلے آسمان تلے پڑی ہیں، کورنگی انڈسٹریل ایریا کے نالے میں آلائشیں پڑی ہیں جس سے شدید تعفن اٹھ رہا ہے اور شہر کے مرکزی نوعیت کے حامل کریم آباد مینا بازار پل کے نیچے گندگی کے ڈھیر لگائے جانے کے ساتھ آلائشیں پل کے نیچے پڑی ہیں،



ملیر، لانڈھی، کورنگی، لیاقت آباد، نیو کراچی، گلشن اقبال، فیڈرل بی ایریا اور فیڈرل کیپیٹل ایریا کے بعض علاقوں، جمشید زون کی کچی آبادیوں میں بھی جگہ جگہ کچرے کے ڈھیروں اور ان کو لگائی گئی آگ سے شدید تعفن اٹھنے کے علاوہ خدشہ ہے کہ مذکورہ جگہوں سے ملحقہ آبادیاں شدید متعدی و وبائی امراض کی لپیٹ میں نہ آ جائیں۔ حالیہ عیدالاضحی کے موقع پر بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کا پول شہریوں کے سامنے کھل گیا ہے۔ کچرے کے ڈھیر میں اٹے اور ابلتے گٹروں سے بہتے گندے اور حالیہ بارشوں کے پانی میں ڈوبے شہر کو اب غلاظت بھری آلائشوں کا شکار بنانے والے عناصر کے خلاف وزارت بلدیات کو فوری ایکشن لینا چاہیے۔