اُڑن تختہ تو کہانیوں میں پڑھ لیا مگر اب ….. !اُڑن ٹیکسیاں پرواز کے لیے تیار

456

ٹیکنالوجی بنانے والی کمپنیوں کے درمیان مسافر بردار اُڑن ٹیکسیاں بنانے کی دوڑ جاری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک ممکن ہو سکے گا اور کیا لوگ انہیں محفوظ سمجھ کر ان میں بیٹھنا پسند کریں گے؟
دبئی کی کوشش ہے کہ وہ سب سے پہلے ہوائی ٹیکسیاں متعارف کروائے۔ اس حوالے سے رواں برس دبئی کی ٹرانسپورٹ اتھارٹی نے ’ولو کاپٹر‘ نامی جرمن کمپنی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت اس برس کے آخر تک شہر میں بغیر پائلٹ والی ہوائی ٹیکسیوں کا تجربہ کیا جائے گا۔
اس بارے میں جاری کی گئی اشتہاری وڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ہوائی ٹیکسیاں 100 کلومیٹر کی رفتار سے 30 منٹ تک سفر کر سکیں گی اور مکمل طور پر محفوظ ہوں گی۔ ان میں 2 مسافروں کے سفر کی گنجائش ہو گی۔
دبئی کے حکام نے ایک چینی کمپنی ’ایہنگ‘ کے ساتھ بھی مسافر بردار ڈرون کے تجربہ کرنے کا معاہدہ کیا ہے لیکن دبئی اس دوڑ میں اکیلا نہیں ہے۔ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی مسافر بردار ڈورن ٹیکسیاں بنانے میں بہت دلچسپی لی جا رہی ہے۔



معروف ٹیکسی کمپنی اُوبر بھی اسی طرح کی ٹیکسیاں بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔
اس کے علاوہ جہاز ساز کمپنی ائربس بھی اسی طرح کے ایک منصوبے پر کام کر رہی ہے اور ان کے بقول رواں برس کے آخر تک اس ڈرون یا فضائی ٹیکسی کا تجربہ کیا جائے گا۔ کمپنی کے مطابق 2020ء تک ڈرون ٹیکسی مارکیٹ میں متعارف کروا دی جائے گی۔
دنیا کے بڑے شہروں میں بڑھتے ہوئے ٹریفک کے مسائل کے باعث ڈرون ٹیکسیوں میں لوگوں کی دلچسپی سمجھ میں آتی ہے۔
چین کی کمپنی ایہنگ کی جانب سے بنائے جانے والی ڈرون ٹیکسی میں ایک، ولو کاپٹر میں 2 جبکہ ائربس کی ڈرون ٹیکسی میں 4 سے 6 مسافر لے جانے کی گنجائش ہو گی۔ ان تمام کمپنیوں کی ڈرون ٹیکسیاں برقی توانائی کا استعمال کریں گی جو ماحول کے لیے بھی بہتر سمجھا جا رہا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ڈرون ٹیکسیاں کیسے کام کریں گی اور کیا یہ صارفین کی قوتِ خرید میں ہوں گی؟
ٹیکسی کمپنی ’اوبر‘ کے لیے اس منصوبے پر کام کرنے والے مارک مور کا کہنا ہے کہ ’اگر اس میں 3یا 4 مسافر سفر کریں گے تو اس کی قیمت تقریباً عام کار ٹیکسی جتنی ہی ہو گی۔‘



ایک سوال یہ بھی ہے کہ اس کی بیٹری کتنی دیر چلے گی؟ یقیناً آپ نہیں چاہیں گے کہ پرواز کے دوران بیٹری ختم ہو جائے۔
چینی کمپنی ایہنگ کا ڈرون تقریباً 23 منٹ تک پرواز کر سکتا ہے۔ لیکن امریکی محکمہ ہوا بازی کے مطابق کسی بھی پرواز کرنے والے جہاز کے لیے ضروری ہے کہ پرواز ختم ہونے کے بعد بھی اس میں 20 منٹ کا اضافی ایندھن ہو، ایس صورت میں کیا یہ ڈرون صرف 3 منٹ کے لیے اڑ سکے گا؟ اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے جس کا حل ڈھونڈنا پڑے گا۔
اُوبر کے مارک مور کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ان میں استعمال ہونے والی بیٹریوں کی ٹیکنالوجی میں دن بہ دن بہتری آ رہی ہے اور جب تک یہ مارکیٹ میں آئیں گی، ان کی پرواز کے وقت میں خاطرخواہ اضافہ ہو چکا ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ جیسے الیکٹرک کاروں میں بہتری آئی ہے، ڈرون ٹیکسیوں کی ٹیکنالوجی بھی مستقبل میں مزید بہتر ہو گی۔
ایک اور بڑا چیلنج یہ ہے کہ ان ڈرونز کو دوسرے جہازوں سے ٹکرانے سے کیسے روکا جائے گا۔



مارک مور کے مطابق دنیا کے بڑے شہروں میں پہلے ہی ہیلی کاپٹروں کے لیے راہداریاں بنی ہوئی ہیں جنہیں یہ ہوائی ٹیکسیاں استعمال کر سکتی ہیں۔ اس حوالے سے سے یقیناً نئی منصوبہ بندی ضروت پڑے گی۔
ان تمام خدشات سے قطع نظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دبئی اس دوڑ میں دوسروں کو پیچھے چھوڑ جائے گا۔ دبئی کے حکام کے مطابق وہ چاہتے ہیں کہ 2030ء تک دبئی میں 25 فیصد ٹرانسپورٹ کے نظام کو خودکار بنا دیا جائے۔
شہری ہوا بازی کے ماہر مارک ماٹن کے بقول دبئی کا موسم ہوابازی کے لیے زیادہ ساز گار نہیں ہے، تیز ہوائیں، ریت اور دھند کی موجودگی میں ان ٹیکسیوں کا اڑنا آسان نہیں ہو گا۔ مارک کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دبئی اس سمت میں ضرورت سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے اگر کوئی حادثہ ہو گیا تو یہ منصوبہ ناکام بھی ہو سکتا ہے۔