ضمیر کی آواز

326

ایس ایم شریف محراب
اب سے کچھ عرصہ قبل ایک قومی اخبار میں رپورٹر کی ڈائری پڑھنے کا موقع ملا جس کے مطابق پنجاب کے کسی بڑے جاگیردار کو کسی قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتاری کے بعد اس نے اپنی ضمانت بھی نہیں کرائی۔ پولیس کی تفتیش مکمل ہونے کے بعد عدالت میں کارروائی کا آغاز ہوا۔ حتمی کارروائی تک وہ ملزم سے مجرم قرار پائے اور عدالت نے ان کے لیے سزائے موت تجویز کی۔ اس پورے عرصے میں عدالتی کارروائی کے دوران انہوں نے ایک بار بھی اقرار جرم نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے عدالت کے فیصلے کے بعد اگلے کورٹ میں اپیل کی۔ سزائے موت دیے جانے سے قبل یہ مذکورہ رپورٹر کال کوٹھری میں ان کے پاس حاضر ہوا اور ان سے پہلا سوال یہی کیا کہ کیا آپ اب بھی خود کو بے گناہ قرار دیں گے۔ جب کہ سارے ثبوت اور گواہ آپ کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہاں میں اب بھی خود کو بے گناہی کہوں گا اب جب کہ مجھے سزائے موت سنادی گئی ہے اور جلد ہی اس پر عمل بھی ہوجائے گا۔ ایسے میں جب کہ یہ میرا آخری وقت ہے اور مجھے اپنی موت سامنے نظر آرہی ہے۔ اس وقت میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گا حقیقت یہی ہے کہ اس کیس میں، میں بے گناہ ہوں۔ اگر واقعی آپ بے گناہ ہیں تو آپ نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کیوں نہیں کی۔ اپیل میں نے اس لیے نہیں کی کہ واقعی میں مجرم ہوں مجھے سزا ضرور ملنی چاہیے میں نے قتل کیا ہے کسی اور کا۔ البتہ یہ والا قتل میں نے نہیں کیا۔



جاگیردار کا ضمیر جاگ چکا تھا۔ وہ اس رپورٹر کے سامنے گویا ہوا کہ جب میں جوانی کے نشے میں چور تھا اور ایک بڑے جاگیردار ہونے کے گھمنڈ میں مبتلا تھا وہ سارا تکبر اور گھمنڈ میرے اندر تھا جوکہ کسی بھی جاگیردار میں ہوسکتا ہے۔ میں صبح کے وقت گھوڑے پر سوار پورے کروفر کے ساتھ اپنی حویلی سے نکلا تو سامنے ہی میں نے ایک کتیا کو پایا جو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو دودھ پلارہی تھی یہ مجھ سے برداشت نہ ہوا کہ میں اتنا بڑا جاگیردار یہ کتیا میرے راستے میں، میں نے فوراً ہی ایک برچھا جوکہ اس وقت میرے ہاتھ میں تھا اس کے پیٹ میں گھسادیا وہ تو اسی وقت مرگئی بچے ادھر ادھر بھاگ گئے مگر کتیا کی آنکھیں مجھ پر لگی تھیں اور مجھ سے کہہ رہی تھی کہ میں نے اسے کیوں ماردیا، میرا کیا قصور تھا مگر مجھے کوئی ترس نہ آیا اور میں آگے بڑھ گیا۔ آج مجھے اس کا احساس ہورہاہے کہ میں نے اس کا ناحق قتل کیا تھا اس لیے آج جو مجھے سزا مل رہی ہے میں اس پر مطمئن ہوں یہ سزا پانے کے بعد مجھے امید ہے کہ میرا اﷲ بھی مجھے معاف کردے گا۔



قارئین کرام! یہ ہے ضمیر کی آواز جب ضمیر جاگتا ہے تو ایک کتیا کے قتل پر بھی انسان سزائے موت کو قبول کرلیتا ہے مگر نہ جانے ہمارے حکمرانوں کا ضمیر کس فولاد کا بنا ہوا ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہوتا ڈھٹائی کا یہ عالم کہ غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی دھڑلے سے لوٹ رہے ہیں، بیرون ملک سرمایہ محفوظ کررہے ہیں، عوام خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں انہیں کوئی ترس ہی نہیں آتا پھر بھی کہتے ہیں کہ ہمارا قصور کیا ہے، عیاشی کا یہ عالم ہے کہء عوام کو اسپتالوں میں علاج میسر نہیں اور خود کو چھینک بھی آجائے تو لندن دوڑجاتے ہیں، علاج کے لیے واپسی پر ایک کروڑ کی گھڑی خریدتے ہیں قومی ٹیم نے ٹرافی کیا جیتی ہر کھلاڑی کو کروڑوں میں تول دیا جیسے یہ قوم کا پیسہ نہیں ہے ان کے باپ کا مال ہے۔ فضول خرچیوں میں خزانہ لٹائیں گے پھر قوم کے نام پر نیا قرضہ لیں گے اس قرضے کی رقم سے عیاشیاں حکمران کریں گے قرضہ قوم اتارے گی۔



مگر ہماری قوم کا حال بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے اگر کل الیکشن ہوتے ہیں اور یہی لوگ یا ان کی جماعت کے دوسرے کرپٹ لوگ الیکشن میں کھڑے ہوجائیں گے جن کا سب کاکچا چھٹہ سامنے آچکا ہے جو پوری قوم کے مجرم ہیں جن کی لوٹ مار سے ملک تباہ و برباد ہوا ہے اس سب کے باوجود نظر یہی آرہا ہے کہ قوم پھر انہی لوگوں کو منتخب کرے گی۔
اصل سوال یہ ہے کہ اگر اس طرح ہوتا ہے تو عدالت عظمیٰ اور اس کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی اور اپوزیشن کی اپریل 2016ء سے اب تک کی گئی جد وجہد اور محنت یہ سب لایعنی مشق ثابت ہوگی۔ پھر ہم کولہو کے بیل کی طرح وہیں کھڑے ہوں گے جہاں سے چلے تھے۔ پھر ہم پانچ سال تک انہی حکمرانوں کو گالیاں دیتے رہیں گے۔ مہنگائی کا، بجلی کا، پانی کا رونا روتے رہیں گے اور کوستے رہیں گے۔ مگر اس پریشانی کا حل نہیں سوچیں گے نہ جانے قوم کے کیا مفادات ہیں ان کرپٹ حکمرانوں سے۔ گالیاں بھی انہی کو دیں گے اور سرپہ بھی انہی کو بٹھائیں گے۔



پاکستان کے گاؤں گوٹھوں کی تو مجبوری ہوسکتی ہے وہ لوگ ووٹ دینے میں آزاد نہیں ہیں مگر شہروں میں رہنے والے تو آزاد ہیں۔ اپنی مرضی سے ووٹ دے سکتے ہیں مگر وہ بھی نہیں سوچتے کہ ہم ان ڈاکوؤں سے آزاد ہوجائیں وہ بھی انہی کی غلامی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ وجہ صرف اس کی یہ ہے کہ ووٹروں کی ایک بڑی تعداد اس دن گھروں سے نکلتی ہی نہیں ہے۔ اس چھٹی کو گھروں میں بیٹھ کر انجوائے کرتی ہے۔ وہ الیکشنوں کے نتائج سے مایوس ہوچکی ہے وہ یہی سمجھتی ہے کہ کچھ بھی کرلو حکومت انہی کرپٹ لوگوں نے کرنی ہے الیکشن کے دن دھوپ اور گرمی لائنوں میں لگ کر دھکے کھانا سب فضول ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ حکمرانوں کی لوٹ مار سے جو قوم کا نقصان ہوتا ہے وہ کسی ایک فرد کا نہیں ہوتا اجتماعی طور پر پوری قوم کا ہوتا ہے اور جب یہ نقصان تھوڑا ہو یا زیادہ 20 کروڑ عوام پر تقسیم ہوجاتا ہے تو فرد واحد پر بہت ہلکا محسوس ہوتا ہے اور اس طرح سب کا حال ایک جیسا ہی ہوتا ہے اور سب ایک دوسرے سے حوصلہ پاتے ہیں۔



تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ہماری ایجنسیوں نے ہمیں مختلف خانوں میں تقسیم کیا ہوا ہے اور نہ ہی ہمیں متحد ہونے دیتے ہیں۔ اس تقسیم میں ایک خانہ برادری ازم کا ہے، دوسرا لسانی ہے اور تیسرا علاقائی ہے۔ جہاں یہ سب ناکام ہوجائیں وہاں فرقہ واریت سے کام چلایا جاتا ہے۔
کراچی میں تیس سالوں سے یہی دیکھتے آرہے ہیں جس کی تباہی کا نتیجہ پوری قوم نے دیکھا مگر اب تک سیکھا کچھ نہیں۔ دُم وہی ٹیڑھی کی ٹیڑھی۔