دور جدید کا فتنہ

482

عارف متین انصاری
شیطان سب سے زیادہ اس سے خوش ہوتا ہے کہ میاں بیوی میں تفریق، جدائی اور دوری ہوجائے، ازدواجی زندگی درہم برہم ہوجائے، معاشرتی اور خانگی زندگی میں بگاڑ و فساد پیدا ہوجائے اور سماجی زندگی کا یونٹ جو گھر ہے وہ تباہ و برباد ہو کر رہ جائے، اس کے لیے وہ ہر تدبیر اور حربہ استعمال کرتا ہے۔۔۔ ہر داو پیچ کھیلتا ہے، ابلیس اپنے ماتحتوں کو روزانہ اس کام کے لیے روانہ کرتا ہے اور اس مہم پر بھیجتا ہے۔۔۔ اور اس کا جو چیلا اس میں کامیاب ہو جاتا ہے، اس مہم کو سر کر لیتا ہے اس کو اپنے سے قریب ہی نہیں کرتا ہے، سارے مجمعے میں اس کی اس کاوش اور کارنامے پر داد دیتا ہے اور بلند عہدہ (شیطانی عہدہ) سے نوازتا ہے۔
آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ابلیسی اور شیطانی فتنے سے اپنی امت کو آگاہ فرما دیا تھا کہ خبر دار اس شیطانی اور ابلیسی فتنے سے اپنے کو دور رکھنا اور اپنی حفاظت کرنا ورنہ شیطان تمھاری خوشگوار ازدواجی زندگی کو تباہ و برباد کردے گا۔ زندگی کے سکون کو چھین لے گا۔ گھر کو ویران اور خاندان کو برباد کردے گا۔ شکوۃ کی روایت ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابلیس اپنا تخت پانی (سمندر) کے اوپر بچھاتا ہے، پھر وہ دوستوں کی شکل میں اپنے ساتھیوں کو بھیجتا ہے، تاکہ وہ لوگوں کو فتنے میں ڈالیں۔ ابلیس کے نزدیک درجے کے اعتبار سے سب سے زیادہ قریب وہ ہوتا ہے جس نے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فتنے میں ڈالا ہو۔ ہر ایک آتا ہے اور کہتا ہے میں نے یہ کیا اور میں نے یہ کیا۔۔۔ ابلیس کہتا ہے کہ تم نے کچھ نہیں کیا۔ پھر ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ایک شخص کے پاس پہنچا اور میں نے اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق اور دوری پیدا کردی، بس ابلیس اس کو اپنے سے قریب کرتا ہے۔۔۔ اور کہتا ہے کہ ہاں تم نے کام کیا۔ امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ابلیس اس کو اپنے سینے سے چمٹا لیتا ہے اور اس کو بغل گیر کرتا ہے۔
مذکورہ حدیث میں ایک اہم اور بنیادی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ سماجی اور معاشرتی زندگی کا یونٹ اور محور و مرکز گھر اور اس کی چار دیواری ہے۔۔۔ اور گھر اسی سے بنتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت میاں بیوی کی حیثیت سے اس گھر میں رہنا شروع کرتے ہیں اور نئی زندگی کی ابتدا اور آغاز کرتے ہیں۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کے اتنے قریب ہوجاتے ہیں جتنا قریب انسان سے اس کا لباس ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر ازدواجی زندگی میں رخنہ پڑجائے اور شوہر بیوی کے درمیان تفریق پڑجائے اور اس کی پرسکون زندگی بے چینی میں بدل جائے تو گویا سماجی عمارت کی ایک اینیٹ کم زور پڑگئی، شیطان نے اس حربے کو ہر زمانے میں استعمال کیا اور اس فتنے کو ہر عہد میں ہوا دیا، لیکن ماضی میں اس کا یہ حربہ اور فتنہ اور یہ برائی ایک محدود برائی سمجھی جاتی تھی مگر فرنگی تہذیب اور ماڈرن کلچر کے اس دور میں یہ فتنہ ایک عالمی فتنہ بن چکا ہے۔۔۔ اور اس کو عالمی برائی کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ آج اجڑے اور سکون واطیمنان سے خالی اور ویران گھر کا مسئلہ ایک مشکل اور پریشان کن مسئلہ بن گیا ہے، جس نے سماجی اور معاشرتی زندگی کے نظام کو درہم برہم کردیا ہے، اور اس کے تانے اور بانے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے ہم سب کو شریعت مطہرہ کے مطابق خوشگوار اور پرسکون ازدواجی زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور شیطان کے اس بڑے فتنے اور دجل و فریب سے حفاظت فرمائے آمین۔