عدالتوں کے بائیکاٹ سے سب سے زیادہ پریشانی سائلین کو ہوتی ہے۔ وکلا گردی کے ساتھ پولیس گردی بھی عروج پر ہے ۔ خاص طور پر پنجاب پولیس بالکل آپے سے باہر ہے۔ 14اگست کو پولیس اہلکاروں نے بھتا نہ دینے پر ایک نوجوان زہیب کو پل سے گرا کر ہلاک کردیا تھا۔ ان اہلکاروں کے خلاف اب تک کارروائی نہیں ہوئی اور پولیس کا محکمہ انہیں تحفظ فراہم کررہا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب تو لندن کی خنک فضاؤں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ کاش انہوں نے نوجوان زہیب کے والدین کی آہ و بکا سنی ہوتی، اس کی ماں کے کوسنے سنے ہوتے۔ پولیس کے محکمے میں کوئی باضمیر تو ہوگا۔ لیکن ایسا ہوتا تو دو دن پہلے لاہور ہی میں پولیس رات گئے ایک گھر میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کر کے شہری کو ہلاک اور ایک بچے کو زخمی نہ کرتی ۔ عینی شاہدین کے مطابق اس چھاپے میں 8کمانڈوز سمیت10افراد نے حصہ لیا۔ وردی میں ملبوس دو جیالے گھر میں گھسے اور کسی مزاحمت کے بغیر گولیاں برسا دیں۔ زخمی بچہ اسپتال میں داخل ہے اور پولیس حکام نے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے اس بچے سے سادہ کاغذ پر انگوٹھے لگوا لیے۔ ہمیں یقین ہے کہ خادم اعلیٰ اس پولیس گردی کا بھی سختی سے نوٹس لے لیں گے ۔ مگر اس کے بعد ؟