خون آشام شہزادی۔۔۔

300

baba-alifوہ مظلوم شہزادی امن کا استعارہ تھی۔ دوسال کی تھی کہ اس کے باپ کو گولی مارکر ختم کردیا گیا۔ اس کی والدہ نے اس کی پرورش کی اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے 1964ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی بھیج دیا۔ وہیں اس نے ایک برطانوی شہری سے شادی کی اور اس کے دو بیٹے بھی ہوئے۔ 1988میں وہ اپنی بیمار والدہ کی عیادت کے لیے وطن واپس آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کے ملک میں 1962 سے فوجی ڈکٹیٹر حکومت کر رہے ہیں اور عوام جمہوریت کے لیے بے تاب ہیں۔ اس نے اپنے لوگوں کے دکھوں کو محسوس کیا اور آمریت کے خلاف ان کی آواز بن گئی۔ تب اسے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ 1991 میں اسے انسانیت اور جمہوریت کی خاطر عدم تشدد پر مبنی جدوجہد کرنے پر امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ لیکن اس کی قید وبند کی صعوبتیں ختم نہیں ہوئیں۔ 2010 تک اکیس برس میں سے پندرہ برس اس نے جیل میں گزارے۔ اس دوران وہ بستر مرگ پر لیٹے اپنے شوہر کے پاس بھی نہ جاسکی کہ پھر واپسی نصیب نہ ہوگی۔ 2015 میں وہ اقتدار میں آئی لیکن اس سے پہلے ہی وہ برما میں آمریت کے خلاف سب سے بڑی آواز بن چکی تھی۔ آنگ سان سوچی۔



انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی یہ شہزدی آج میانمار سابق برما کی خون آشام شہزادی ہے۔ آج پوری دنیا روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر پریشان ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ ماہ 25اگست سے اب تک راکھائن میں مسلمانوں کے خلاف پر تشدد واقعات میں ایک لاکھ 23ہزار مسلمان سرحد عبور کرکے بنگلا دیش میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہ مہاجرین خوراک اور سر چھپانے کے لیے مدد کے منتظر ہیں۔ سیکڑوں افراد دونوں ممالک کی سرحدوں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں جب کہ سیکڑوں بنگلا دیش پہنچنے کی کوشش میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق روہنگیا مسلمان دنیا کی مظلوم ترین اقلیت ہیں۔ پچیس اگست سے شروع ہونے والے فوجی آپریشن میں میانمار کی فوج، پیرا ملٹری دستوں، پولیس اور بدھ بھکشوؤں نے بچوں کے سر قلم کردیے، ہزاروں شہریوں کو زندہ جلادیا۔ لیکن آنگ سان سوچی نے نہ صرف ان اندوہناک اور خوفناک جرائم پر مکمل خاموشی اختیار کررکھی ہے بلکہ وہ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ برما میں اس وسیع پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے۔ وہ اسے میڈیا کا پروپیگنڈا باور کرنے پر زور دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک ہوں یا کوئی اور ملک مسلمانوں کے خلاف سب امت واحدہ ہیں۔ ان کی انسانیت، امن کے انعامات سب ان کے اپنے لیے ہیں۔ معاملہ مسلمانوں کا ہو تو یہ سب خونیں درندے ہیں۔ وہ جو کل تک انسانیت کی علامت تھی، آنگ سان سوچی، آج اس بات کے لیے کوشاں نظرآتی ہے کہ میانمار میں قتل عام کے ذریعے مسلمانوں کا نام ونشان مٹا دیا جائے یا پھر انہیں مکمل طور پر میانمار سے بے دخل ہونے پر مجبور کردیا جائے۔



روہنگیا مسلمان میانمار کی رکھائن ریاست میں آباد ہیں۔ رکھائن کو پہلے اراکان بھی کہا جاتا تھا۔ یہ برما کا مغربی ساحلی علاقہ ہے جو خلیج بنگال کے پانی سے ملتا ہے۔ اس علاقے کو اراکان کے پہاڑ برما سے جدا حیثیت دیتے ہیں۔ رکھائن کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ روایات کے مطابق کسی زمانے میں یہاں راکشش یا بھوت پریت رہتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق رکھائن میں مسلمانوں کی آبادی دس سے پندرہ لاکھ ہے۔ جب کہ رکھائن کی کل آبادی تقریباً تیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ رکھائن کا یہ علاقہ تاریخی طور پر میانمار سے اکثر جدا ہی رہا ہے اور یہاں راجا حکومت کرتے تھے۔ اورنگ زیب عالمگیر نے موجودہ میانمار کے حکمرانوں کے آباؤ اجداد طاقتور ’’رکھائن مورو ڈرز‘‘ کو شکست دی تھی جنہوں نے راکھائن ریاست کو چٹاگانگ تک بڑھایا تھا جو اب بنگلادیش کاحصہ ہے۔ اورنگ زیب نے پہلے رکھائن ریاست کو اس کے اتحادی پرتگالیوں سے جدا کیا پھر 1666ء میں 36دن کے محاصرے 6500 فوجیوں اور 288 بحری جہازوں کی مدد سے چٹاگانگ کو آزاد کرایا۔ یہ شکست اتنی شدید تھی کہ پھر ایک عرصے تک رکھائن ریاست سنبھل نہ سکی۔ اس دوران مسلمان یہاں آباد ہونا شروع ہوگئے۔ ساحلی علاقہ ہونے کی وجہ سے عرب ممالک کے بحری جہاز وں کی یہاں آمد شروع ہوگئی۔



1826 میں رکھائن کا علاقہ برطانیہ کے قبضہ میں چلا گیا۔ 1948 میں برما کی آزدی کے بعد رکھائن برما کا حصہ رہا۔ جلد ہی اس خطے میں آزادی کی تحریک شروع ہوگئی۔ رکھائن کے لوگوں کا مطالبہ یہ تھا کہ چونکہ یہ علاقہ تاریخی طور پر برما کا حصہ نہیں رہا اور اپنی الگ تاریخی شناخت رکھتا ہے اس لیے اسے الگ ملک بنایا جائے۔ 1982 میں برما کی حکومت نے ایک قانون منظور کیا کہ جو لوگ رکھائن میں 1823 کے بعد آکر آباد ہوئے ہیں انہیں برما کا شہری تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ یوں ڈیڑھ دوسو برس سے آباد مسلمانوں کو یک دم غیر ملکی قرار دے کر شہریت سے محروم کردیا گیا۔ ان لوگوں کے برما کے دیگر علاقوں میں آمد ورفت پر پابندی عائد کردی گئی اور صحت اور تعلیم کی سہولتوں سے محروم کردیا گیا۔
گزشتہ چالیس برسوں سے میا نمار کے مسلمانوں کو بار بار فوجی آپریشنوں کا سامنا ہے۔ جن میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جاتی ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمانوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔ قیام پاکستان کے بعد ایک عرصے تک برما کے مسلمان یہ مطالبہ کرتے رہے کہ ان کے مغربی علاقے کو جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں مشرقی پاکستان کا حصہ بنایا جائے یا پھر ایک علیحدہ ریاست کا درجہ دیا جائے۔ اس کے بعد بھی مسلمان برما کی مرکزی حکومت کے خلاف کسی نہ کسی صورت احتجاج کرتے رہے۔ یہ علاقہ مسلسل کشیدگی کی زد میں ہی رہا۔ موجودہ کشیدگی کا آغاز 2012 میں ہوا جب رکھائن کے انتہا پسند بدھ مت کے پیرو کاروں اور مسلمانوں کے درمیاں جھڑ پیں ہوئیں۔



بدھ بھکشوؤں نے ہزاروں مسلمانوں کے مکانات کو آگ لگادی جس میں ہزاروں مسلمان جل کر شہید ہوگئے اور لاکھوں مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور ہونا پڑا۔ بعد میں جب فوج اور پولیس نے علاقے کا کنٹرول سنبھالا انہوں نے بدھوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف مزید ظلم کا بازار گرم کردیا۔ اکتوبر 2016 میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ایک بار پھر فوج نے آپریشن شروع کردیا۔ ہزاروں مسلمانوں نے ایک بار پھر بنگلا دیش کا رخ کیا۔ اب گزشتہ ایک ماہ سے پھر روہنگیا کے مسلمانوں کے خلاف میانمار کی فوج، پولیس، پیرا ملٹری دستوں اور بدھوں کا آپریشن جاری ہے۔ جس میں اب تک ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو کسمپرسی کی حالت میں نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ جنوب مشرقی بنگلا دیش کے ضلع کاکسس بازار کے مہاجر کیمپ، اسکول اور کمیونٹی سینٹر مہاجرین سے بھرے ہوئے ہیں۔ سہولتوں کی عدم دستیابی کی بنا پر یہاں ہر روز انسانی المیے جنم لے رہے ہیں۔



اسلامی ممالک کے ایجنٹ حکمرانوں کا مسلمانوں کے اس عظیم المیے پر رویہ وہی ہے جو ان کی روایت بن چکا ہے۔ جہاں تک پاکستان کے حکمرانوں کا تعلق ہے تو انہوں نے تین ستمبر تک تو ان جرائم پر خامو شی اختیار کیے رکھی اس کے بعد دفتر خارجہ نے ایک ٹھنڈا ٹھار بیان جاری کردیا۔ پاکستان کی حکومت انتہائی شرمناک کام جو کررہی ہے وہ یہ کہ میانمار کی وہ فوج جو مسلمانوں کے خلاف بھیانک جرائم اور نسل کشی میں مصروف ہے حکومت پاکستان اسے سولہ JF17 تھنڈر طیارے فراہم کررہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میانمار کی حکومت سے مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف شدید احتجاج کیا جاتا اور طیاروں کی فراہمی منسوخ کی جاتی ہم اس مسلم دشمن فوج کو مضبوط کررہے ہیں۔ آفرین ہے ہم پر اور آفرین ہے مسلمانوں کی اس متحدہ فوج پر بھی جس کی قیادت ہمارے سابق سپہ سالار اعظم کررہے ہیں جس نے اس ظلم عظیم پر ایک لفظ کہنے کی جرأت نہیں کی۔ روہنگیا کے مسلمانوں کو بیانات اور امداد سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ میانمار کی فوج کو ان کی نسل کشی سے روکا جائے۔ بیانات سے تو یہ نسل کشی رکنے کی نہیں۔