مردم شماری اور مردم شناسی

488

zc_Muzaferبھارت کے بارے میں پاکستانی حکومت اور کشمیری قیادت کو بھی یہی شکایت ہے کہ وہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنا چاہتا ہے۔ یہ تناسب تبدیل کرکے بھارت تو کشمیر میں ممکنہ استصواب کے وقت اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا چاہتا ہے بلکہ اس کا یہ ارادہ بھی ہوسکتا ہے کہ خود استصواب کی پیش کش کرکے اقوام متحدہ کو ملا کر یہ ڈھونگ استصواب بھی کرا ڈالے اور کشمیر پر اقوام متحدہ کے تعاون سے قبضہ کرلے۔ لیکن پاکستان کے محکمہ شماریات اور مردم شماری کے کیا مقاصد ہیں کہ وہ پاکستان میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کررہے ہیں۔ پاکستان کی آبادی میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن کراچی جیسے شہر کی آبادی کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ معلوم نہیں اب تک اس شہر میں جو لوگ رہتے تھے وہ یہاں سے بھاگ گئے ہیں یا نامعلوم لوگ تھے۔ مختلف ذرائع اور ادارے تواتر سے 2000ء کے بعد سے کراچی کی آبادی کے جائزے سامنے آتے رہے ہیں اور اسے دو کروڑ، سوا دو کروڑ اور ڈھائی کروڑ تک کہا جارہا تھا۔ صرف کہا نہیں جارہا تھا بلکہ جو اعداد و شمار بتائے جاتے تھے ان کے مطابق تو کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہی ہے۔



مختلف سیاسی جماعتوں نے محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کا مردم شماری کے اعداد و شمار سے موازنہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کسی موازنے کی ضرورت کیوں ہے۔ پاکستان کے پاس تو نادرا جیسا نادر نظام موجود ہے، اس سے مدد کیوں نہیں لی جاتی۔ اس نظام کے تحت ہر پاکستانی شناختی کارڈ بنوارہا ہے، اس کے 18 سال سے کم عمر کے بچے کا اندراج ب فارم میں ہوتا ہے۔ اور ہر نئی پیدائش کا اندراج کرانا پڑتا ہے۔ یہ سب کمپیوٹرائزڈ ہورہا ہے، اموات کی صورت میں بھی قبرستان کمپیوٹرائزڈ ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے بغیر تدفین کی تصدیق نہیں کرتا۔ اس کے بغیر کسی گھر کا کوئی کام آگے نہیں بڑھتا۔ لہٰذا ہر چیز نادرا کے پاس جمع ہوا کرتی ہے، اتنا زیادہ ہنگامہ کرکے مردم شماری کی گئی اور کئی علاقوں میں اسکولوں کی چھٹیاں، معمول کے امتحانات، یہاں تک کہ ضمنی انتخابات بھی ملتوی کیے گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ سندھ کی شہری آبادی زیادہ اور دیہی کم نکل آئی۔ کراچی کی آبادی کم ہونے پر شور مچا تو پتا چلا کہ دو اضلاع دیہی آبادی میں شامل کرلیے گئے ہیں۔ معلوم نہیں دیہی میں شامل ہونے کے بعد وہ کراچی کیوں نہیں رہے۔



کراچی سے متحدہ کے ڈھائی درجن ارکان سندھ اسمبلی اور قومی اسمبلی و سینیٹ کے بھی اتنے ہی ارکان منتخب ہوئے تھے لیکن وہ منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ آج کل بھارت سے آیا ہوا پان پراگ یا گرو ڈالے بیٹھے ہوں گے لیکن جب بھی کراچی کا کوئی مسئلہ آیا یہ ارکان اسمبلی خاموش بیٹھے رہے۔ کوٹا سسٹم کی توسیع ہو یا کراچی کے اداروں کو صوبے کے قبضے میں لینے کا عمل سب ان کی آنکھوں کے سامنے اور ناک کے نیچے ہوا۔ اب بھی کراچی کے دعویدار یا ٹھیکیدار صرف اختیار اختیار کی تسبیح پڑھ رہے ہیں لیکن یہ اختیار بھی تو اسی وقت ملے گا جب کراچی کی آبادی ریکارڈ میں درست آئے گی۔ لیکن اصل بات کی طرف ان میں سے کوئی نہیں آرہا۔ پیپلز پارٹی یا حکومت سندھ کی جانب سے جو تشویش ظاہر کی جارہی ہے اس کا سبب بھی وہی اختیارات ہیں جن کا رونا میئر کراچی روتے رہتے ہیں۔ جب بجٹ بنے گا تو سندھ دیہی اور شہری کا بجٹ اسی اعتبار سے بنے گا جس اعتبار سے ان علاقوں کی تقسیم کی گئی ہے اور اگر دیہی علاقے کم نکلے تو بجٹ بھی کم ملے گا۔ حکومت سندھ کا سارا زور اس امر پر ہے کہ دیہی آبادی زیادہ ظاہر کی جائے اس طرح دیہی بجٹ زیادہ ہوگا۔



اب کراچی کے جن دو اضلاع کو دیہی ظاہر کیا گیا ہے بجٹ مختص کرتے ہوئے تو وہ دیہی شمار ہوں گے اور بجٹ خرچ کرتے ہوئے کراچی کا حصہ شمار ہوں گے اور کراچی کو فنڈز اس لیے کم ملیں گے کہ اس کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ظاہر کی گئی ہے۔ کراچی والے تھوڑا بہت شور مچائیں گے اور خاموش بیٹھ جائیں گے جو ارکان اسمبلی ہیں ان کی تنخواہیں اور مراعات بڑھ جائیں گی اور جو میئر ہیں ان کو اسی تنخواہ سے کام کرنا پڑے گا کیوں کہ حکومت سندھ کے پاس تمام اختیارات ہوں گے اور بجٹ بھی۔ تو یہ ہے سارا کھیل مردم شماری میں گھپلوں کا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہونا چاہیے!!! ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ منتخب نمائندے اسمبلی میں باقاعدہ ٹیکنیکل اعتراضات اور ثبوتوں کے ساتھ معاملات اُٹھائے اور اگر میئر بھی ان ہی کی پارٹی کے ہیں تو بلدیہ کراچی کو وہ اختیارات بھی دلواتے جو وہ چاہتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہورہا۔ بوجوہ نہیں ہورہا۔ شاید ابھی تک یہ طے نہیں ہوسکا ہے کہ جو لوگ کراچی، حیدر آباد سے رکن اسمبلی یا سینیٹ منتخب ہوئے ہیں وہ کس کے آدمی ہیں۔



کیوں کہ جب ان کو نامزد کیا گیا تھا تو سب الطاف گروپ یا موجودہ لندن گروپ کے تھے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ یا تو پاک صاف پارٹی (پی ایس پی) میں جا کر پاک صاف ہوگئے ہیں یا ازخود لندن سے لاتعلقی کا اعلان کرکے پاک صاف ہوگئے ہیں لیکن ان لوگوں کو پاک صاف نہیں کہا جارہا جو ’’بات‘‘ نہیں مان رہے۔ یعنی کارکن ’را‘ کے ایجنٹ، ارکان اسمبلی متحدہ پاکستان کے اور الطاف حسین لندن گروپ۔ جب کہ کارکن بھی الطاف کے تھے اور تمام ارکان اسمبلی و سینیٹ بھی الطاف حسین کے۔ اب ہو یہ سکتا ہے کہ کراچی کے عوام ایسے گروپوں سے جان چھڑائیں جن کی جڑیں پاکستان میں نہیں اب تو مصطفیٰ کمال، انیس قائم خانی اور فاروق ستار، وسیم اختر، عامر خان، سلیم شہزاد ان سب ہی نے اعتراف کرلیا ہے کہ متحدہ 28 برس سے ’را‘ کے لیے کام کررہی تھی۔ تو کیا 28 برس ’را‘ کے لیے کام کرنے والے اچانک پاکستان کے لیے کام کرنے لگیں گے۔ ایسا کسی کہانی میں تو ہوسکتا ہے حقائق تو یہی بتاتے ہیں کہ ایجنٹ ایک دفعہ بنتا ہے اور وفاداری بدلنے کے بعد صرف مرتا ہے۔ لیکن یہ سب زندہ ہیں۔ یعنی یا تو ایجنٹ والا کام اب بھی کررہے ہیں یا پھر ان کو چلانے والے ہی سارا اُلٹا سیدھا کام کررہے ہیں۔ پھر بھارت اور امریکا سے کیا شکوہ۔ یہاں ابھی تو آبادی اور حقائق کو بدلا جارہا ہے یعنی مردم شماری اور مردم شناسی دونوں میں گڑبڑ ہے۔