’’سرحدوں کے دفاع سے اندرونی دفاع تک۔۔۔ ایک سبق‘‘

233

گلشن ناز، حیدر آباد
6ستمبر کی جب چونڈہ اور کھیم کرن کے مقام پر بھارتی فوج نے حملہ کیا پاک فوج نے بھرپور جواب دیا او ر ان سے نا صرف مقبوضہ علاقہ خالی کرا لیا بلکہ انہیں اپنی سرحدوں پر واپس لوٹ جانے پر مجبور کر دیا پاکستان کے اس سنہرے باب کی یاد دہانی کے لیے یوم دفاع مناتے ہیں ہر چند کے اس وقت فرد نے کردار ادا کیا لوگوں نے اپنے خون اور عطیات کی فراہمی میں اپنی استطاعت سے بڑھ کر ایثار دکھایا بلاشبہ وہ قربانی فراموش نہیں کی جا سکتی جب کہا گیا کہ ہم ایک ایک پیسے سے ٹینک بنائیں گے اور خود بھوکے رہیں گے مگر اپنا دفاع مضبوط کریں گے۔ اور اس وقت لوگوں نے اپنی ضروریات روک کر امداد کی فراہمی کی وہ زندہ قوموں کے لیے ایک مثال ہے بلاشبہ یہ ایک کٹھن دور کا سنہری باب ہے جسے آئندہ نسلوں تک پڑھا جانا چاہیے۔ سرحدوں پر کھڑے محافظ آج تک اپنے فرائض جس حسن خوبی سے نبھا رہے ہیں وہ ان جیسے دلیر لوگوں کا شیوہ ہے کہ جس طرح بیرونی دفاع کے لیے اقدامات کیے گئے افرادی قوت کے ساتھ ساتھ دفاعی قوت کو جس طرح مضبوط کیا گیا وہ قابل ستائش ہے۔ اگرچہ پاکستان 70 سال بعد
بھی حالت جنگ میں ہے اور اپنا استحکام برقرار رکھ کر دشمن کا منہ توڑ رہا ہے جو کوئی آسان کام نہیں لیکن اگر پاکستان کے اندرونی دفاع کی بات جائے تو صورت حال نہایت مایوس کن نظر آتی ہے۔ پاکستان آج بھی اسی مقام پر ہے جہاں ستر سال پہلے تھا بلکہ شاید اس سے بھی پیچھے ہوگیا ہے۔ ہم جس طرح افغانستان کی جنگ کے نتائج بھگت رہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ حکمرانوں کے مایوس کن فیصلے ہی سامنے آتے رہے جس نے اندرونی مدافعت کی کشتی کو ڈانوا ڈول کردیا ریمنڈیوس کی رہائی سے لیکر تمام خارجہ پالیسیوں اور بیرونی تعلقات تک جتنے اہم فیصلے کیے گئے ان میں ملکی مفادات اور تحفظ کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا یہ اندرونی معاملات ہی ہوتے ہیں جنہوں نے 1971ء کے سقوط ڈھاکا جیسا شرمناک باب پاکستان کی تاریخ سے جوڑ دیا۔ اسی طرح اگربات سانحہ ماڈل ٹاؤن کی کی جائے تو یہ بھی اندرونی دفاع کی کمزوری کا منہ بولتا ثبوت ہے ہم یوم دفاع منا رہے ہیں لیکن اس حوالے سے کئی سوالات ابھر
رہے ہیں کیا حالت جنگ میں ہوتے ہوئے بھی ہمارا دفاع اتنا مضبوط ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر دفاع تو دونوں طرح کا مقصود ہوتا ہے محض سرحدوں کے تحفظ سے دفاع ممکن نہیں کیونکہ طوفان ہمیشہ سمندر کے اندر ہی سے پیدا ہوتے ہیں ہر شہری کے جان و مال عزت آبرو اس کے معاشرتی حیثیت کا دفاع اس لفظ میں شامل ہوجاتا ہے پھر تو سڑکوں پر لٹتے شہری سر عام قتل ہوتے عوام، معاشی حالات اور کسمپرسی سے تنگ آکر خود کشی کرتے ہوئے لوگ، اپنے مستقبل کے حسین خواب سجائے دردر کی ٹھوکریں کھاتے نوجوان، گلی محلوں میں پستی نوع انسانی ہمیں کیوں نظرآتی ہے۔ کیا ان کا دفاع ایک غیر ضروری امر ہے۔ میرے وطن کے لوگ اتنے حقیر نہیں ہیں کہ سرحدوں کے تحفظ کے آگے نظر انداز کر دیا جائے۔ میرا سوال یہ ہے کہ بیرونی دفاع کے ساتھ ساتھ اندرونی دفاع پر توجہ کیوں نہیں دی جا رہی۔ چونکہ ہم حالت جنگ میں ہیں ہم ہر شخص اپنے جان و مال عزت و آبرو کے دفاع کے لیے لڑ رہا ہے اور ہمیں لڑتے رہنا ہوگا تاآنکہ بیرونی دفاع کے استحکام کے ساتھ ساتھ اندرونی دفا ع بھی مضبوط ہو سکے۔
مقدر کی زنجیروں سے بندھے ہم بے بس لوگ
عمریں گزار دیتے ہیں معجزوں کے انتظار میں