پاکستانی حکمران امت کی قیادت سے معزول ہو گئے

690

اب ان کا مسئلہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا ۔ پاناما کیس یاقوانین کوبگاڑنا رہ گیا ہے
دنیابھر میں مسلمان حکمران برما کے مسلمانوں کے لیے جلسے جلوس کر رہے ہیں اور پاکستانی حکمران لڑ رہے ہیں
مظفر اعجاز
ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کے حکمران کشمیر ، فلسطین ، برما ، بوسنیا غرض دنیا کے کسی گوشے میں بھی مسلمانوں پر مظالم پر ایک بیان دیتے تھے اور ساری دنیا اس پر توجہ کرتی تھی نہ صرف توجہ بلکہ اس بیان کا اثر یہ ہوتا تھا کہ مظالم رُک جایا کرتے تھے یا کم تو ہو ہی جاتے تھے ۔ دنیا کے کئی حصوںمیں مسائل صرف جنرل ایوب ، بھٹو ، ضیاء الحق یا نواز شریف کے بیانات سے حل ہو جاتے تھے لیکن گزشتہ دس بارہ سال سے پاکستان امت مسلمہ کی قیادت سے گویا معزول ہو چکا ہے ۔ اب تو یہ صورتحال ہے کہ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کا معاملہ ہو تو بوسنیا میںلاکھوں عوام کا احتجاج ہوتا ہے اور قیادت بوسنیا کے وزیر اعظم کرتے ہیں ۔ انڈو نیشیا میں فلسطینیوں کے لیے مظاہرہ ہوتا ہے اور قیادت اور خطاب انڈو نیشین صدر کرتے ہیں ۔ یہی حال ترکی کا ہے ۔ غزہ کا سامراج ہو یا مقامی مسلمانوں کے لیے آواز اٹھانے کا معاملہ ترک صدر ایردوان قیادت کرتے ہیں لاکھوں کی تعداد میں عوام شرکت کرتے ہیں ۔ اور اب برما کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے انڈو نیشیا کے وزیر خارجہ نکل کھڑے ہوئے ۔ ایردوان نے لاکھوں کے مجمعے سے خطاب کیا ۔ بوسنیا میں برما کے مسلمانوں سے یکجہتی کا جلسہ ہوا تو حکمرانوں نے ہی قیادت کی ۔ جبکہ پاکستان کی صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ دنیا میانمرر کی حکومت کو للکار رہے ہیں ذرا ملاحظہ فرمائیں صرف اگست کے آخری عشرے کے بیانات اور اقدامات جو پاکستانی حکمران طبقہ کر رہا تھا ۔ پاکستانی سیاسی جماعتیں جماعت اسلامی اور دیگر دینی جماعتیں تو اپنا فریضہ ادا کر رہی تھیں لیکن ذرا غور فرمائیں حکمراں طبقہ کیا کر رہا تھا ۔



٭ نواز شریف نے پاناما کیس کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی ایک اور درخواست دائر کر دی
٭ نواز شریف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت ۔ عدالت نے درخواست خارج کر دی
٭پارلیمنٹ نے دفعہ 62,63 میں ترمیم کا بل منظور کر لیا
٭ پاک فوج کیوں پیچھے رہتی ترجمان نے بیان دیا کہ عوام کو ڈان لیکس کی رپورٹ جاننے کا حق ہے ۔
٭وزیر اعظم نے اداروں کے درمیان محاذ آرائی کے درمیان یہ بیان دیا کہ اداروں کے درمیان کوئی محاذ آرائی نہیں ۔
٭ اور26اگست کو نواز شریف کے بچوں او رداماد کی جانب سے پاناما کیس کا فیصلہ چیلنج کر دیا گیا ۔
پھر نواز شریف کا بیان ۔ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ غلط بنیادوں پر ہے واپس لیا جائے ۔ طاقت اور عدلیہ نے ملک کو آمریت میں جکڑ رکھا ہے ۔ نواز شریف ۔
وزیر خارجہ خواجہ آصف کو اب 6 سال بعدریمنڈ ڈیوس یاد آ گیا کہتے ہیں ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پرقومی غیرت کا سودا کیا گیا۔ چیئر مین سینیٹ تحقیقات کا حکم دیں ۔ کیوں بھائی ریمنڈ کی رہائی کے وقت بھی پنجاب میں ن لیگ کی حکومت تھی اور آج مرکز میں حکومت آپ کی ہے ۔ چیئر مین سینیٹ کیوں تحقیقات کریں ۔ اسی طرح میاں نواز شریف کا بیان ہے کہ پارلیمنٹ کی بالا دستی پر یقین رکھتے ہیں ۔ کیا یہ بیان دینے کی ضرورت تھی۔ وزیر داخلہ احسن اقبال کہتے ہیں کہ جے آئی آٹی کے بعد سے قوم کو 14 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ تو قوم کیا کرے۔ اس کا سبب بھی تو حکمران ہی ہیں۔



یہ سارے بیانات اور سرگرمیاں یہاں نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستانی حکمران طبقہ اور طاقت کے مراکز کی دلچسپی کے عنوانات میں برما اور امت مسلمہ کہیں نہیں ہے یہ سب آپس کی لڑائی اور کھینچا تانی میں مصروف ہیں۔ سب اپنی قوت دوسرے ادارے اور شعبے کو نیچے لانے میں استعمال کررہے ہیں جب کہ بوسنیا، انڈونیشیا اور ترکی کے حکمران برما کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مارچ کررہے ہیں جلوس نکال رہے ہیں اور ان کے جلوس اور مارچ اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔ ذرا اگست کے مہینے میں میاں نواز شریف کے جلوسوں اور جلسوں میں عوام کی بھرپور شرکت ہوئی۔ یہ لوگ کہاں سے لائے جاتے ہیں، کون کون سی گاڑیاں استعمال ہوتی رہیں یہ باتیں سب جانتے ہیں۔ پیپلزپارٹی بھی ہوتی تو یہی کرتی لیکن جب برما کا معاملہ اتنا سنگین ہے تو میاں نواز شریف، خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف یا عبوری وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کوئی ایک جلسہ، کوئی ایک اجتماع امت مسلمہ کے نام پر بھی کر لیں۔ اس طرح لوگوں کو لائیں جس طرح قومی اداروں کے خلاف احتجاج کے لیے لاتے ہیں۔ یا یہ بھی اس وقت کا انتظار



کررہے ہیں جو جنرل پرویز پر آگیا ہے۔ جنرل پرویز پہلے سوال کیا کرتے تھے کہاں ہے امت؟ لیکن اب انہیں بھی امت یاد آنے لگی ہے۔ تو میاں صاحب اپنے بہت ہی برے وقت سے پہلے امت کو یاد کرلیں۔ پاکستانی حکمرانوں نے ہی پاکستان کو امت کی قیادت کے منصب سے معزول کرایا ہے۔ ورنہ قیام سے لے کر 1990ء کے عشرے تک پاکستان امت کی قیادت کرتا تھا۔ اب سب سے پہلے پاکستان کے نعرے نے پاکستان کو محدود کردیا ہے۔ اب کہا جارہاہے کہ پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا۔ برما کے مسئلے پر یہ حکمران کیسے بولیںگے جن کا مسئلہ ہی عدالت، نیب اور جے آئی ٹی کی ٹانگیں گھسیٹنا ہو۔ یہ کام کسی زمانے میں جنرل ضیا کی قیادت میں پاک فوج کرتی تھی لیکن آج اس کے مسائل بھی کچھ اور ہیں۔ سب کو مل کر سوچنا ہوگا کہ ہو کیا رہا ہے۔ عراق، یمن، شام، افغانستان، کشمیر، فلسطین اور اب برما… مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب ایک ہی کہانی ہے۔ سب ا پنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔