امریکی ڈاکٹرائن بمقابلہ چینی ڈاکٹرائن

441

حسیب عماد صدیقی
نئی صدی میں تکّلم، تعلیم، تعمیر، تجارت اور ترقی امن و خوشحالی کی راہ ہے۔
دنیا میں جن لوگوں نے بے گناہ انسانوں کا خون بہایا ہے ان میں زیادہ مشہور ہٹلر، اسٹالن، مسولینی، چنگیز خان اور ماؤ زے تنگ وغیرہ ہوئے۔ لیکن امریکا میں بسنے والی سفید فام نسل جن کے آباؤ اجداد نے یورپ کے مختلف ملکوں برطانیہ، اسپین، آئر لینڈ، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، اٹلی، پولینڈ، ناروے اور دیگر یورپی ممالک سے ہجرت کی، اصل میں انہوں نے دنیا میں سب سے زیادہ بیگناہ انسانوں کا خون بہایا اور ان کے وسائل اور علاقوں پر قبضہ کیا۔ ان میں کروڑوں ریڈ انڈین، افریقن، کورین، ویتنامی، جاپانی، جنوبی امریکی، عرب، افغانی اور دیگر بے شمار چھوٹی اقوام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کروڑوں افریقیوں کو غلام بنا کر امریکا لے جایا گیا۔ انسانیت کی ایسی تذلیل شاید تاریخِ انسانی میں کہیں ملے۔ ان یورپی اقوام نے آپس میں بھی پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران بے دریغ ایک دوسرے کا خون بہایا ہے جس کی تعداد کروڑوں میں ہے۔



جنگِ عظیم دوم کے بعد امریکا اور روس دو عظیم طاقتیں بن کر سامنے آئیں اور انہوں نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ دونوں نے دوسری قوموں کے وسائل اور علاقوں پر اپنا اثرو رسوخ اور لوٹ مار برقرار رکھنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ یورپ نے صنعتی انقلاب سے حاصل ہونے والی خوشحالی اور طاقت کو دوسری اقوام کے علاقے اور وسائل پر قبضے کے لیے استعمال کیا اور دوسرے ملکوں کو اپنی کالونیوں میں تبدیل کر دیا جس کا مقصد وہاں کے وسائل لوٹ کر اپنے ملکوں میں منتقل کرنا تھا۔ یہ پالیسی جو جنگ و جدل، قتل وغارت، وسائل پر قبضے اور لوٹ مار پر مبنی تھی اسے یورپی، امریکی اور روسی ڈاکٹرائن کہہ سکتے ہیں چاہے یہ برطانوی امپیریلزم ہو، امریکی کیپیٹل ازم یا روسی کمیونزم ہو۔ یہ گزشتہ کئی صدیوں سے ان طاقتور اقوام کا فلسفہ رہا ہے۔
کیا انسانوں کا خون بہائے بغیر امن، ترقی اور خوشحالی ممکن ہے؟



چین نے ثابت کیا ہے کہ دنیا میں خون بہائے بغیر بھی ترقی ممکن ہے۔ ہانگ کانگ چین کا حصہ تھا جس پر برطانیہ نے قبضہ کر رکھا تھا۔ تین دہائی قبل ہی چین اتنا طاقتور ہو گیا تھا کہ جب چاہتا ہانگ کانگ پر بزورِ طاقت قبضہ کر سکتا تھا لیکن اس نے برطانیہ سے مزاکرات کیے اور پرامن طریقے سے ہانگ کانگ کو واپس چین کے زیرِ انتظام کر لیا اسی طرح تائیوان بھی چین کا حصہ ہے لیکن اس وقت وہ امریکا کے زیرِ اثر ایک الگ ملک کے طور پر موجود ہے لیکن چین نے تائیوان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے بھی ہمیشہ مذاکرات کا راستہ اپنایا۔ چین اپنی پر امن پالیسی کی بدولت نہایت تیز رفتاری سے ترقی کر کے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے اور اب مزید پیش قدمی کرتے ہوئے ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ کے ذریعے پوری دنیا میں تجارت برائے ترقی و امن کے زیرِ عنوان چار ہزار ارب ڈالر کا عظیم الشان منصوبہ شروع کر چکا ہے جس کا بنیادی مقصد چین سے باقی دنیا کو بذریعہ روڈ اور ریلوے نیٹ ورک ملانا ہے تاکہ باہمی تجارت بڑھے۔
روس نے پاکستان کی گرم پانی کی بندرگاہ پر قبضے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا اس کا اگلا نشانہ پاکستان تھا۔ سیکڑوں ارب ڈالر اور ہزاروں روسی فوجی اور لاکھوں معصوم افغانوں کا خون بہا کر بھی اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکا جب کہ چین کو بھی پاکستان کی بندرگاہ گوادر کی ضرورت تھی اس نے ایک گولی چلائے بغیر چھپن ارب ڈالر کے پاکستان میں انفرا اسٹرکچر اور توانائی کی ترقی کے منصوبے کے عوض گوادر پورٹ کے استعمال کا تیس سالہ معاہدہ کر لیا۔



یہ منصوبہ ناصرف چین اور پاکستان بلکہ دوسری قوموں کے لیے بھی تجارت، ترقی اور خوشحالی کا باعث بنے گا۔ کیا امریکا افغانستان میں مزید خونریزی کرنے کے بجائے چین کی پالیسی اختیار نہیں کر سکتا؟ اگر افغانستان کے تمام متحارب گروہوں کے درمیان، علاقائی ملکوں کی مدد سے ایک عظیم مزاکرے کا اہتمام کیا جائے اور انہیں امن، ترقی، خوشحالی کے ثمرات سے آشنا کیا جائے اور افغانستان پر فوج کشی پر خرچ ہونے والی رقم کا صرف دس فی صد تکّلم، تعلیم، تعمیر، تجارت اور ترقی پر خرچ کیا جائے اور انصاف کے ادارے، ہسپتال، تعلیمی ادارے، روزگار اور آمد و رفت کے ذرائع تعمیر کیے جائیں تو شاید بغیر کسی خونریزی کے افغانستان کا تیس سالہ مسئلہ بہت خوش اسلوبی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ بد قسمتی سے ہندوستان بھی امریکن ڈاکٹرائن کی نقل کررہا ہے اور امریکا کا پارٹنر بن کر جنگ و جدل اور قتل وغارت کے ذریعے اس علاقے کا پولیس مین بننا چاہتا ہے۔ بھارت کو پتا ہونا چاہیے کہ اس علاقے کے بڑے ممالک روس، چین، ایران اور پاکستان سب امریکی توسیع پسندی کے خلاف ہیں۔ بھارت کی مثال جنگل کی اس کہانی کی طرح ہے۔



ایک بندر شیر کی خدمت پر معمور تھا اور اس کے عوض شیر اپنا بچا کچا کھانا بندر کو دے دیا کرتا تھا۔ بندر اپنی قوم کا سردار تھا۔ ایک دن بندرجاتی نے اس سے کہا کہ تم نے شیر کی اتنی خدمت کی ہے اگرشیر تمہیں شکار کرنا سکھا دے تو ہم بھی جھوٹا کھانے سے بچ جائیں گے اور عزت سے شکار کرکے زندگی گزاریں گے۔ بندر نے شیر سے فرمائش کی کے میں نے ساری زندگی آپ کی خدمت کی ہے اور اب اگر آپ مجھے شکار کے گر سکھا دیں تو میں بھی باقی زندگی عزت سے بسر کروں گا۔ شیر نے اس کی بات مان لی اور کہا کہ کل شام آنا میں تمہیں شکار کے گر سکھا دوں گا اگلی شام شیر اسے اپنے ساتھ جنگل میں لے گیا وہاں ایک موٹا تازہ بھینسا گھاس چر رہا تھا۔ شیر نے بتایا کہ شکار کا پہلا اصول یہ ہے کہ صحیح وقت کا انتخاب کرو یعنی جب سورج غروب ہو رہا ہو اس وقت شکار کا جانور تھکا ہوا ہوتا ہے دوسرا یہ کہ شکار کے قریب ترین پہنچو لیکن اسے پتا نہ چلے۔ تیسرا دیکھو کہ میری آنکھیں سرخ ہو گئی ہیں اور میرے جسم اور دم کے بال کھڑے ہو گئے ہیں اور چوتھا یہ کہ حملہ کر دو۔ یہ کہہ کر شیر نے چھلانگ لگائی اور بھینسے پر حملہ کر دیا اس کی گردن دبوچ لی اور شکار کو زمین پر گرا دیا۔



یہ دیکھ کر بندر نے کہا کہ یہ تو بہت آسان کام ہے اور میں خواہ مخواہ ساری زندگی جھوٹا کھاتا رہا۔ اس نے اگلے دن ساری بندر جاتی کو جمع کیا اور کہا کہ ہم ذلت آمیز زندگی گزارتے رہے اور جھوٹا کھاتے رہے۔ یہ تو بہت آسان کام ہے۔ کل سے خود شکار کریں گے اور عزت کی زندگی گزاریں گے۔ اگلی شام بندر اپنی تمام بندر جاتی کو لے کر جنگل میں گیا اور مغرب کے وقت کا انتخاب کیا۔ وہاں بھی ایک موٹا تازہ بھینسا گھاس چر رہا تھا۔ وہ اس کے قریب پہنچا اور بندر جاتی سے کہا کہ دیکھو کیا میری آنکھیں سرخ ہو گئیں ہیں اور دم کے بال کھڑے ہو گئے ہیں؟ سب نے کہا ہاں اور پھر بندر جھاڑی کے پیچھے سے نکلا اور بھینسے پر حملہ کر دیا۔ بھینسے نے ایک زوردار ٹکر ماری۔ بندر کو دن میں تارے نظر آ گئے۔ سارے بندر بھاگ کھڑے ہوئے اور اس نے بڑی مشکل سے درخت پر چڑھ کر اپنی جان بچائی۔ اگلے دن سارے بندر جمع ہوئے اور کہا کہ شیر نے ہم سے چیٹنگ کی ہے اور شکار کا اصل گر نہیں بتایا۔ بندروں کا سردار شیر کے پاس گیا اور کہا کہ شاید آپ آخری گر بتانا بھول گئے۔ شیر نے کہا کہ ہاں سوری میں یہ بتانا بھول گیا کہ شکاری شیر ہونا چاہیے۔



بھارت تاریخ کے غلط رخ پر کھڑا ہے اسے یہ پالیسی بہت مہنگی پڑ سکتی ہے۔ اسے بھی چاہیے کہ پڑوسیوں سے اپنے اختلافات مذاکرات سے حل کرے اور چین کی پالیسی یعنی تکّلم، تعلیم، تعمیر، تجارت اور ترقی اپنائے۔ دوسروں کی شہ پر اپنے قد سے بڑی بات گلے پڑ سکتی ہے۔ پاکستان کو بھی اس موقع پر بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہے۔ پاکستانی سیاسی لیڈرشپ، وزارت خارجہ اور قومی سلامتی کے ادارے امریکا کی موجودہ افغان پالیسی اور پاکستان کے خلاف اس کے ممکنہ فوجی اور معاشی رد عمل کا بہت گہرا سے جائزہ لیں۔ امریکا کی شکایات پر سنجیدگی سے غور کریں اور ان کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے تحفظات خصوصاً افغانستان میں موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہیں اور افغان سرزمین پر بھارتی سفارت خانوں کا دہشت گردی کے لیے استعمال سے آگاہ کریں۔ پاکستانی لیڈرشپ کی کامیابی یہ ہوگی کہ وہ بغیر کسی تنازع یا تصادم میں الجھے ٹرمپ کی افغان پالیسی سے پیدا شدہ بحران سے پاکستان کو باہر نکالے اور مسائل کو مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کرے کیونکہ نئی صدی میں تکلم، تعلیم، تعمیر، تجارت اور ترقی ہی امن و خوشحالی کی راہ ہے۔