اس مسودے کے مطابق اخبارات، جرائد، نیوز ایجنسیز، پرنٹرز وغیرہ کو اجازت نامے اب یہ اتھارٹی دے گی۔ یہ جب چاہے گی قیدکا حکم اور جرمانے عائد کرسکے گی جو کچھ اس مسودے میں درج ہے اس کے مطابق اخبارات کی اشاعت سے مسودہ تیار کرنے والوں کی ناواقفیت بھی سامنے آرہی ہے اس کے ابتدائیے کی دفعہ دو میں ایڈیٹر کا مطلب یہ لکھا گیا ہے کہ جس کا نام ڈکلیریشن میں دیا گیا ہو۔ حالانکہ ایڈیٹر کا تقرر بعد میں بھی ہوسکتا ہے ایڈیٹر تبدیل بھی ہوجاتا ہے۔ ابھی تک حکومت کی جانب سے تو ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے لیکن پی پی ایم آر اتھارٹی آرڈیننس کے نام سے جو تجاویز زیر گردش ہیں ان کی کیا قانونی حیثیت ہے اس مسودے میں تضادات بھی ہیں دفعہ 14 کی ذیلی دفعہ 2 میں اتھارٹی کے فنڈز کے حوالے سے درج ہے کہ اتھارٹی کو وفاقی حکومت ابتدائی رقم دے گی۔ اخبارات سے ڈیکلیریشن کی فیس وصولی کے علاوہ اتھارٹی ملک کے اندر اور ملک باہر سے فنڈز وصول کرنے کی حق دار ہوگی۔ اسی طرح اتھارٹی غیر ملکی کرنسی میں اکاؤنٹ کھولنے کی حق دار بھی ہوگی۔ جب کہ دفعہ 30 میں یہ قد غن لگائی گئی ہے کہ پاکستان کے باہر رہنے والے کو ڈیکلیریشن کی اجازت نہیں ہوگی۔ کسی غیر ملکی کمپنی کو یا غیر ملکی قوانین کے تحت چلنے والی کمپنی کو یا ایسے فرد کو جس کو غیر ملکی حکومت یا تنظیم فنڈز دے اسے ڈیکلیریشن نہیں دیا جائے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود تو غیر ملکی فنڈز وصول کرکے غیر ملکی حکومتوں یا اداروں کی ہدایات اور ایجنڈے کے پابند ہوجائیں گے اور یہی کام کرنے والوں کو ڈیکلیریشن سے محروم رکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ اتھارٹی کو جرمانے کرنے کا اختیار بھی ہوگا اور کسی بھی ادارے کے معائنے کے نام پر کسی بھی وقت کسی بھی سطح کے افسران کو اخبارات میں گھس جانے کی اجازت بھی ہوگی۔ جرمانے بھی دس دس لاکھ روپے تک۔ اور سزائیں بھی۔ یعنی ایڈیٹرز نہ ہوگئے جرائم پیشہ افراد ہوگئے اور گریڈ 16،17 یا 18 کے افسران کے محتاج ہوجائیں گے۔ یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ ڈیکلیریشن رکھنے والوں کوتو دس لاکھ جرمانہ اور جو ڈیکلیریشن کے بغیر اخبار شائع کرے اسے محض 50 ہزار جرمانہ۔ امید ہے پریس کونسل آف پاکستان اس کی بھی وضاحت کردے گی۔ آیا یہ مسودہ محض ڈراما ہے یا اس کی کوئی حقیقت ہے۔