مگر کیسے؟ 

253

baba-alifکراچی میں اتوار کو جماعت اسلامی کے تحت سپورٹ روہنگیا مارچ میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ شرکاء کا جوش اور جذبہ دیدنی تھا۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے خطاب کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ’’روہنگیا مسلمانوں پر مظالم پر مسلم حکمران اور اسلامی ممالک کی فوج کیوں خاموش ہے۔‘‘ ہم نے بھی گزشتہ کالم اس سوال پر ختم کیا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر57 مسلم ممالک کے حکمران وہ کام کیوں نہیں کررہے جو ان کے منصب کا تقاضا ہے۔ امداد بھیجنا، یک جہتی کا اظہار کرنا، برما کی حکومت کی مذمت کرنا، یہ حکمرانوں کا نہیں عوام کا کام ہے۔ حکمرانوں کا کام سیاسی، معاشی حتیٰ کہ فوجی کارروائیاں کرکے ظلم کو روکنا ہے۔ اس پر مزید اظہار سے پہلے مولانا فضل الرحمن کے بیان پر تبصرہ، انہوں نے روہنگیا کے مسئلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی عسکری اتحاد نے مایوس کیا ہے۔ جواب دیا جاسکتا ہے کہ حضور اسلامی عسکری اتحاد کوئی کیڑے مار دوا نہیں ہے کہ جہاں مسلمانوں پرکافر جراثیم حملہ آور ہوں چھڑک دی جائے۔



کئی ماہ پہلے سعودی عرب میں اسلامی ممالک کے رہبرو رہنما جناب صدر ٹرمپ نے اسلامی عسکری اتحاد کے اغراض ومقاصد کا تعین کرتے ہوئے یہ کب کہا تھا کہ اسلامی اتحاد کا کام مسلمانوں کے قتل عام کو روکنا ہے۔؟ اسلامی اتحاد کا کام دہشت گردی کو روکنا ہے، یہ اتحاد دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے بنایا گیا ہے اور مسلمانوں کو قتل کرنا یا ان کی نسل کشی کرنا دہشت گردی میں شمارنہیں ہوتا۔ اسلامی ممالک پر حملہ آور قابض امریکی افواج کے خلاف جہاد دہشت گردی میں شمار ہوتا ہے جس کے خاتمے کے لیے تمام اسلامی ممالک امریکا کی سربراہی میں کوشاں ہیں۔ اتحاد اسلامی ممالک جیسے یمن وغیرہ میں مداخلت کے لیے تشکیل دیا گیا ہے، برما کا شمار کب سے اسلامی ملکوں میں ہونے لگا ہے کہ اتحاد مداخلت کرے۔ اگر اسلامی عسکری اتحادکی مداخلت سے ناراض ہوکر برما نے اسلامی ملکوں پر حملہ کردیا تو پھرکیا ہوگا۔ اسلامی عسکری اتحاد کا برما کے مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف اقدام بھارتی وزیراعظم محترم نریندر مودی کو ناگوار گزر سکتا ہے جنہوں نے حال ہی میں برما کا دورہ کیا ہے اور برما کی حکومت سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ وہ برما کے مسلمانوں کی شورش پر برما کی حکومت کا دکھ سمجھتے ہیں۔



نریندر مودی کوناگوار لگے یہ ہمارے سعودی بھائیوں کو ناگوار لگے گا شاہ سلمان نے جنہیں سعودی عرب کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا تھا جس کی جھلک بھی آج تک کسی پاکستان حکمران نے نہیں دیکھی۔ ہمارے عرب بھائیوں کو قدرت نے دولت اور صحت کے امتزاج سے ایک نادر قسم کی شوکت عطا کی ہے جو ان کے نزدیک امت مسلمہ کے درد اور عقل سے کہیں زیادہ دیرپا ہے۔ اس کا اظہار وہ یورپی ممالک میں سیر وتفریح اور دیگر دلچسپیوں میں کروڑوں اربوں خرچ کرکے کرتے رہتے ہیں اس کے بعد امت مسلمہ سے اظہار کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں۔ ہمارے سابق سپہ سالاراعظم جنرل راحیل شریف جو اسلامی عسکری اتحادکے چیف بھی ہیں آج کل پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں ممکن ہے وہ سعودی حکومت کی طرف سے برما کے مسلمانوں کی مدد کے لیے کوئی منصوبہ لائے ہوں جس پر سعودی اور پاکستانی حکومت مل کر برما کے خلاف کارروائی کریں۔ یہ لکھ کر ہم نے اپنے زور سے چٹکی لی اور پھر ہماری آنکھ کھل گئی۔



جہاں تک 57اسلامی ممالک کا تعلق ہے تو مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم اسلامی۔ ممالک بولتے ہیں تو اسلام ان ممالک تک پہنچتے پہنچتے کہیں راہوں میں فراموش کردیا جاتا ہے۔ ممالک باقی بچتے ہیں جن کا پیمانہ اسلامی قومیت نہیں قومی ریاست کا عطا کردہ مغربی تصور ہے۔ ان ستاون ممالک میں سے بھی آٹھ دس ہی قابل ذکر ہیں باقی تو بس جنرل نالج میں اضافے اور گنتی پوری کرنے کے لیے ہیں۔ ان آٹھ دس ممالک کا جائزہ لیا جائے تو سوائے مایوسی کچھ نہیں ملتا۔ الجزائر میں 1992کے عام انتخابات میں اسلامی محاذ آزادی کی شاندار کامیابی کے بعد فوج نے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اور کم سے کم دولاکھ افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ القاعدہ اور داعش کے نام پر اب شہریوں کے خلاف آپریشن کرنے اور مارنے میں مزید سہولت ہوگئی ہے۔ مصر میں جنرل السیسی مصری عوام کے قتل وغارت پر اسرائیل اور امریکا کی طرف سے ما مور ہیں۔ انہیں سعودی عرب کی حمایت اور مدد بھی حاصل ہے۔ سوڈان کے صدر عمر البشیر کے 2009 اور 2010 انٹر نیشنل کرمنل کورٹ نے گرفتار کرنے کے لیے وارنٹ جاری کیے تھے جس میں اس پر دارفر میں نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف الزامات لگائے گئے تھے۔



وہ اب تک بیس لاکھ افراد کے گلے کاٹ چکا ہے۔ سعودی عرب یمن کے معاملات میں اس قدر مصروف ہے کہ امت مسلمہ کے حوالے سے اس کا کردار محدود سے محدود تر ہوتا جارہا ہے۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو وہ مسلمانوں کو شیعہ سنی کی بنیاد پر دیکھتا ہے۔ عراق، افغانستان، شام اور نہ جانے کہاں کہاں وہ مسلمانوں کی بربادی میں امریکا اور اسرائیل کا معاون ہے۔ ایران بھارت سے مواخات پر یقین رکھتا ہے مودی کے آنے کے بعد ایران اور بھارت کی رفاقتوں میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس کا اندازہ دشوار بلکہ بہت دشوار ہے۔ رہ گئے افغانستان اور عراق تو وہ برما میں مسلمانوں کی نسل کشی روکنے میں معاون ہو سکتے ہیں اسے ایک لطیفہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ شام کا ذکر سینے میں بھالا مارنے کے مترادف ہے۔ بھارت اور برما مل کر مسلمانوں کو اتنی بے دردی سے نہیں مار سکتے جتنی بے دردی سے شام میں بشار الاسد کی افواج مار رہی ہیں۔ جہاں تک سوویت یونین سے آزاد ہونے والی وسطی ایشیائی ریاستوں کا تعلق ہے تو بیش تر میں ڈاڑھی رکھنے اور نوجوانوں کے نماز پڑھنے پر پابندی ہے۔



ازبکستان کے اسلام کریموف نے مسلمانوں پر اسلام سے وابستگی کی بنیاد پر جو ظلم توڑے انہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ نائیجریاکی آبادی تقریباً چھ کروڑ ہے۔ مسلمانوں کی 50فی صد اور عیسائیوں کی 48فی صد۔ یہ تیل پیدا کرنے والا بارہواں بڑا ملک ہے۔ تیل پیدا کرنے والا ملک ہو، مسلمانوں کی اکثریت ہو اور وہاں انتشار اور خانہ جنگی نہ ہو کیسے ممکن ہے۔ نائیجریا کی وجہ شہرت بوکو حرام ہے۔ گزشتہ سال پورے افریقا کے جنگ زدہ علاقوں میں جتنی اموات ہوئیں ان میں سے نصف بوکوحرام کا کارنامہ ہیں اور بوکو حرام یہ سب کر رہا ہے ۔ملائشیا، انڈونیشیا اور مالدیپ نے برما کی حکومت کے خلاف موثر احتجاج کیا ہے۔ ترکی احتجاج میں سب آگے ہے جس نے بنگلا دیش کو پیش کش کی وہ برما کے مسلمانوں کے خلاف اپنی سرحدیں کھول دے اخراجات ترکی ادا کرے گا۔ اس سے قبل بنگلا دیش کی حسینہ واجد ان برمی مسلمانوں کی بڑی بے دردی سے واپس برما اور سمندر میں دھکیلتی رہی ہے۔ رہ گیا پاکستان تو وہ پاناما، ٹرمپ کی دھمکی اور برکس کے اعلامیہ میں ایسا گرفتار ہے کہ برما کے خلاف احتجاج کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔



کہنا یہ ہے کہ ظالم کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔ اس ضمن میں اسلامی ممالک کے حکمرانوں کا کردار ایک ڈھونگ ہے۔ یہ مغربی طاقتوں کی اجازت، مدد اور منظوری کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے۔ ان حکمرانوں کی وجہ سے اسلامی ممالک کی باگ ڈور مسلم عوام کے بجائے امریکا اور مغربی ممالک کے ہاتھ میں چلی گئی ہے۔ وہی ہمارے فیصلے کرتے ہیں۔ ہر اسلامی ملک کے لیے امریکا کا ایک زہر قاتل منصوبہ ہے جس میں یہ حکمران رنگ بھر رہے ہیں۔ امریکا اور مغرب کے دہشت گردوں نے اسلامی ممالک کو ایسے فتنوں، شورشوں اور خانہ جنگیوں میں الجھادیا ہے کہ خود ان ممالک میں مسلمانوں کے گھر تباہ ہورہے ہیں، بچے یتیم اور خاندان کے خاندان ہجرت پر مجبور ہورہے ہیں، عزتیں مجروح ہورہی ہیں۔ جو ظلم اور سفاکی یہ حکمران خود کررہے ہیں کیسے وہ برما اور دیگر ممالک کے حکمرانوں کو اس سے روک سکتے ہیں؟