خون اجداد رسد! عزت آبا مددے۔۔۔

485

baba-alifسیدالایام، جمعہ، سب سے بہتر دن جس پر آفتاب طلوع ہوتا ہے۔ جمعہ کی نماز پڑھ کر باہر آئے، طبیعت اداس اور بوجھل تھی۔ امام صاحب نے جس درمندی اور وضاحت سے میانمر کے مسلمانوں کے قتل عام کا نقشہ کھینچا تھا اور اس پر جس پریشانی اور درد مندی کا اظہار کیا تھا ہم ابھی تک اس کے حصار میں تھے۔ کوئی بے چارگی سی بے چارگی ہے۔ جب سے میانمر کی فوجوں کے ہاتھوں طویل عرصے سے مصائب کا شکار، روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی خبریں آرہی ہیں عالم اسلام میں ہر شخص دکھی اور ہر آنکھ پرنم ہے۔ جسم کے ایک حصے میں کانٹا چبھتا ہے تو کس طرح انگ انگ تکلیف محسوس کرتا ہے، امت جسد واحد ہے، اس کی تصویر کسی کو دیکھنی ہے تو آج روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر، دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں جھانک کر دیکھ لے۔ ہر دل ویرانئ صحرا کا منظراور نوائے درد وغم ہے۔



میانمر کے مسلم اکثریتی علاقے راکھائن کی تازہ صورت حال یہ ہے کہ اب وہاں مسلمانوں کی کوئی آبادی باقی نہیں رہی ہے۔ جمعہ آٹھ ستمبر ہی کی خبر ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کا ایک اور گاؤں جلادیا گیا ہے۔ غیر ملکی صحافیوں کی ایک ٹیم کے ساتھ راکھائن کے علاقوں کا دورہ کرنے والے بی بی سی کے نمائندے کا کہنا ہے کہ ایک گاؤں میں آگ لگی ہوئی تھی۔ جب ہم وہاں پہنچے تو وہاں سے شرپسندوں کو باہر نکلتے دیکھا جن کے ہاتھوں میں چھریاں، تلواریں اور غلیلیں تھیں۔ جب ان سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ بدھ مت کے ماننے والے ہیں۔ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ آگ انہوں نے لگائی ہے اور اس کام میں انہیں پولیس کی مدد حاصل ہے۔ اب اس میں کوئی کلام نہیں کہ میانمر میں مسلمانوں کا ہولو کاسٹ کرنے والی فوج، پولیس اور پیرا ملٹری دستے ہیں یا پھر بدھ شدت پسند جنہیں حکومت کی تائید اور سرپرستی حاصل ہے۔ مسلمانوں کی کوئی آبادی نہیں جسے حکومتی سرپرستی میں آگ نہ لگادی گئی ہو۔



گلی محلوں اور کھیتوں میں برمی مسلمانوں کی جو لاشیں ہیں انہیں بھی نذرآتش کیا جارہا ہے۔ جو لاکھوں مسلمان بچ گئے ہیں انہیں جنگل کی طرف دھکیل دیا گیا ہے تاکہ خود ہی مرکھپ جائیں۔ سوشل میڈیا پر جو اندوہناک اور خونیں مناظر اور جلی کٹی لاشیں موجود ہیں انہیں دیکھنے اور بیان کرنے کے لیے لوہے کا جگر چاہیے۔ ایک ماں کا کہنا ہے اس کے سامنے اس کے سات بچوں کو ذبح کردیا گیا۔ نہ جانے کتنی مائیں ہیں جن کی نظروں کے سامنے ان کے بچے قتل کردیے گئے۔ ایک منظر میں ایک شخص کو ستون سے باندھ کر زندہ جلایا جارہا ہے۔ ایک منظر میں بہت سارے لوگ ایک بھاگتے ہوئے شخص پر بے تحاشا ڈنڈے برسارہے ہیں۔ ایک منظر میں اتنی لاشیں کٹی ہوئی پڑی تھیں کہ گننا ناممکن۔ ہر طرف خون مسلم کی ارزانی، نسل کشی، قتل عام اور دنیا میں کوئی ہاتھ دست قاتل کو روکنے والانہیں
کوئی آیا ہے مجھے آگ لگانے کے لیے
صحن بے چارگئ مسجد اقصی مَدَدے
کس طرف سجدہ کروں کس سے دعائیں مانگوں
اے مرے شش جہت قبلہ وکعبہ مَدَدے



روہنگیا مسلمانوں کے لیے دنیا بھر کے لوگوں میں ہمدردی کی لہر پیدا ہوچکی ہے۔ عالم اسلام میں بھی خاک وخون کے درمیان سسکتے مسلمانوں، شعلوں میں گھرے مکانوں، لٹتے کنبوں اور بے بسی سے ہاتھ پھیلائے برہنہ بچوں کے غم میں ہر دل ماتم کدہ ہے۔ جہاں اظہار کے مواقع ہیں وہاں جلسے اور جلوسوں کی صورت مظاہرے بھی کیے جارہے ہیں۔ چیچنیا دس پندرہ لاکھ کی آبادی والا ملک ہے وہاں لاکھوں افرادکا جلوس دارالحکومت گروزنی کی سڑکوں پر نکل آیا۔ تباہ حال بھارتی مسلمانوں نے بھی دہلی میں ایک بڑا احتجاج کیا۔ انڈونیشیا میں بھی بڑے بڑے جلوس نکلے ہیں۔ پاکستان بھر میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں وکلا اور سول سوسائٹی کا احتجاج جاری ہے۔ جمعہ کو جماعت اسلامی، دفاع پاکستان کونسل، پاکستان علماء کونسل اور وحدت المسلمین کے علاوہ وکلا، طلبہ اور تاجر برادری نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، لاہور، کراچی، کوئٹہ، پشاور، ملتان فیصل آباد، گلگت، اسکردو اور پارا چنار سمیت ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں نکالیں اور مظاہرے کیے گئے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق کی قیادت میں ہزاروں افراد نے اسلام آباد میں آبپارہ چوک سے برما کے سفارت خانے تک احتجاجی مارچ کیا۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ برما میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ ان حالات میں ہم خاموش تماشائی نہیں بن سکتے۔



برما میں مسلمانوں کے ہولو کاسٹ پر جو کچھ دنیا بھر کے مسلمان کر رہے ہیں ان کے بس میں اتنا ہی ہے۔ اس سے سوا وہ کر بھی کیا کرسکتے ہیں کہ احتجاج کریں، ریلیاں نکالیں، اقوام متحدہ سے مطالبے کریں اور اپنی نمازوں میں اللہ ربّ العالمین سے برما کے مسلمانوں کے لیے دعا کریں۔ روئیں اور آہ وزاری کریں۔ دنیا بھر میں ہمیشہ سے عوام کا یہی کردار رہا ہے لیکن کیا حکمرانوں کا بھی یہی کردار ہوتا ہے۔ 57اسلامی ممالک کے وہ حکمران جو میانمر کے مسلمانوں کے قتل عام اور نسل کشی کے خلاف میانمر کی حکومت کے خلاف سیاسی معاشی حتی کہ فوجی کارروائی کرسکتے ہیں کیا ان کا بھی یہی کردار ہونا چاہیے کہ وہ میانمر کی حکومت کی مذمت کریں، قراردادیں منظور کریں، روہنگیا مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کریں امدادی سامان بھجواتے وقت آنسو بہائیں۔ یہ تو وہ کام ہیں جو عام مسلمانوں کے کرنے کے ہیں اور عام مسلمان کررہے ہیں۔ آج بطور حکمران ان کے کرنے کے کام یہ ہیں کہ وہ میانمر کے سفیروں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیں، انہیں ملک بدر کریں، اپنے اپنے ممالک میں میانمر کے سفارت خانے بند کریں۔ میانمر کی حکومت کو مختصر مہلت دیں کہ وہ چوبیس گھنٹوں



کے اندر اندر مسلمانوں کا قتل عام بند کرے ورنہ اس کے خلاف ہر قسم کی کارروائی جس میں فوجی کارروائی بھی شامل ہے کی جا سکتی ہے۔ ہمارے حکمران یہ کام کرسکتے ہیں۔ یہ مسلم حکمران آج امریکا اور اقوام متحدہ کے کہنے پر وہ امن وامان اور ظلم کے خاتمے کے لیے دنیا بھر میں اپنی افواج بھیجتے رہتے ہیں۔ عالم اسلام کے حکمران ان عظیم مسلم حکمرانوں کی روایات کے وارث ہیں جو ایک مسلمان عورت کی فریاد پر سات سمندر پار کرکے اس کی مدد کو پہنچتے تھے۔ آج پھر مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے اور وہ ظلم کہ دنیا اس کے خلاف چیخ اٹھی ہے۔ پھر مسلم ممالک کے حکمران وہ کام کیوں نہیں کرسکتے جو کام صرف حکمران ہی انجام دے سکتے ہیں۔؟
آج اولاد پہ ہے قحط ضمیر وجرات
خون اجداد رسد! عزت آبا مددے
آج گم گشتۂ منزل ہیں روایات خضر
آج بیمار ہے صدیوں کا مسیحا مددے
پیاس ایسی کہ زباں منہ سے نکل آئی ہے
کوئی قلزم کوئی دریا کوئی قطرہ مددے