بارشوں سے اس بار اور شاید پہلی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ بعض علاقوں میں نماز عید کے خصوصی اجتماعات بھی نہیں ہوسکے۔ کیونکہ بلدیہ عظمیٰ کراچی سمیت کراچی کے چھ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنوں اور ایک ضلع ہر سال کی طرح عیدگاہوں میں وہ خصوصی انتظامات نہیں کرسکے جو نماز عید کے لیے کیے جاتے ہیں۔ وجہ یہی تھی کہ کھلے میدانوں میں بارش کا پانی جمع تھا۔
30 اور 31اگست کی بارشوں کے نتیجے میں ’’اربن فلڈ‘‘ بھی آگیا جس کی پیشگی اطلاع محکمہ موسمیات نے اپنے مشاہدے کو سامنے رکھتے ہوئے دے دی تھی۔ محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ عبدالرشید کا کہنا تھا کہ تیز بارشوں کے نتیجے میں پانی کی نکاسی کا نظام درست نہ ہونے کی وجہ سے’’اربن فلڈ‘‘ آسکتا ہے۔ شہری سیلاب کچھ اس طرح آیا کہ ایدھی فاؤ نڈیشن کو کشتیاں نکالنا پڑیں۔ اور فوج کو بلا نا پڑا۔ فوج اگر بروقت مدد کے لیے نہیں آتی تو خدشات تھے کہ ضلع وسطی میں بہت تباہی ہوتی۔ اس ضلع میں واقع برساتی نالے بھر کر نظروں سے اوجھل ہوگئے جب کہ زیر زمین گزر گاہیں سوئمنگ پول میں تبدیل ہوچکی تھیں۔ اس دوران صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو اور میئر وسیم اختر کی حالت بھی قابل دید تھی۔ ان دونوں کے چہروں پر کہیں شرم اور ندامت نہیں تھی بلکہ دونوں بارشوں کا پانی نہ نکلنے اور نالے صاف نہ کیے جانے کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈال کر جان چھڑانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔
جو سڑکیں ٹوٹی ہوئیں تھیں وہاں بارشوں کے باعث گڑھے پڑچکے ہیں جن کی گہرائی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے یقین نہ آئے تو شاہراہ فیصل پر ملیر کالا بورڈ سے ملیر پندرہ تک کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ بارش کے دوران ’’شرم سے پانی پانی نہ ہونے والے‘‘ وزیر جام خان شورو نے ڈھٹائی سے کہا کہ وقت کے ساتھ مختلف جگہوں پر کھڑا پانی خود خارج ہوجائے گا۔ مطلب انہیں نالوں کی صفائی نہ کیے جانے کا کوئی دکھ اور افسوس نہیں تھا۔ صوبائی وزیر اطلاعات ناصر شاہ کا کہنا تھا کہ ’’بارش سے پیدا ہونے والی صورت حال پر کسی کو قصور وار ٹھیرانے کا وقت نہیں ہے‘‘۔ ظاہر ہے جب ذمے دار حکومت کے ساتھ دیگر متعلقہ ادارے بھی ہوں تو ’’کس منہ سے کس پر الزام لگایا جاسکتا ہے‘‘۔ نالوں کی صفائی کی مد میں گزشتہ تین سال کے دوران اربوں روپے خرچ کیے گئے لیکن نالے صاف نہیں ہوسکے۔ گجر نالہ اور محمود آباد نالہ کو چوڑا کرنا اور یہاں سے تجاوزات ہٹانے کا کام زور شور سے کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے ایک ارب روپے کا خصوصی فنڈز صوبائی خزانے سے لیا گیا۔
بلدیہ عظمیٰ کا محکمہ انسداد تجاوزات نے نالے کے اطرف سے تجاوزات ہٹائے لیکن محکمہ میونسپل سروسز اور انجینئر نگ نے نالے صاف کیے اور نہ ہی انہیں چوڑا کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت دس فٹ سڑک بھی تعمیر کی جانی تھی تاکہ مستقل بنیادوں پر نالوں کی صفائی کے لیے مشینری لائی جاسکے۔ مگر اب جس جگہ سڑک بنائی جانی تھی تجاوزات دوبارہ قائم ہونا شروع ہوگئیں ہیں۔ ایک ارب روپے سے کیا کچھ کیا گیا یا یہ کہاں خرچ کیے گئے یہ معلوم کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے یا پھر میئر کراچی کا۔
بارشوں سے نبٹنے کے لیے فوج اس لیے بلائی گئی کہ بلدیہ عظمیٰ سمیت کسی بھی بلدیاتی ادارے کے پاس ڈی واٹرنگ پمپس نہیں تھے۔ شہر کے تمام ضلعی بلدیاتی اداروں میں اگرچہ منتخب نمائندے موجود ہیں لیکن یہ تمام ادارے براہ راست صوبائی حکومت کے محکمہ لوکل گورنمنٹ کے ماتحت آتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ ادارے ہر سال ڈی واٹرنگ پمپس ہی نہیں بلکہ ندی نالوں کی صفائی کے لیے مجموعی طور پر کم از کم پانچ ارب روپے خرچ کرتے ہیں۔ ہر سال اس رقم سے نئے پمپس بھی خریدے جاتے ہیں لیکن ہر سال یہ تمام پمپس غائب یا خراب ہوجاتے ہیں اور کوئی ندی نالہ مناسب طریقے سے صاف بھی نہیں کیا جاتا۔
شہر میں گزشتہ دس سال میں پہلی بار اس قدر بارشیں ہوئیں یہ اللہ کی طرف سے خصوصی کرم تھا۔ مگر برساتی پانی کی نکاسی کے نظام پر اس دوران توجہ دینے کے بجائے متعلقہ اداروں اور افسران نے صوبائی وزراء کی نگرانی میں اس مد میں ملنے والے بجٹ کی ’’صفائی‘‘ پر توجہ دی۔ نتیجہ سب کے سامنے بارشیں ہوتے ہی آگیا۔ بارشوں کے نتیجے میں 25سالہ گارنٹی کے تحت بنائی جانے والی سڑکیں ہی نہیں پل بھی ٹوٹ گئے۔ یونیورسٹی روڈ کے مختلف حصوں سے سڑک ادھڑگئی۔ ملیر پندرہ پر بنائے جانے والے پل میں شگاف پڑ گیا تھا۔ مگر اس ناقص کام کے بارے میں کسی نے بھی نہیں پوچھا۔ انہوں نے بھی نہیں جو غیر منتخب ہونے کے باوجود منتخب نمائندوں کے رہنما کہلاتے ہیں اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں اور انہوں نے بھی نہیں پوچھا جن کے اشارے پہ سندھ کے انتظامی ڈھانچے میں سیلابی تبدیلیاں رونما ہوجاتی ہیں۔
کراچی کے حقیقی شہری جو مستقل یہیں رہتے ہیں اور یہاں پر ہی دفن ہوجاتے ہیں یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ آخر کب تک اور کون کون ہمارے حقوق چھینتا رہے گا؟ یہ شہر جو ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے پورے ملک کو سالانہ کم از کم ایک کھرب 13ارب روپے یا ایک سو تیرا ارب روپے کما کر ملک کے خزانے میں جمع کراتا ہے کیا اس قدر آمدنی دینے والے شہر کے کو خصوصی فنڈز فراہم نہیں کیے جاسکتے۔ یہاں کے لوگ یہ بھی پوچھنا چاہتے ہیں کہ کراچی دنیا کے مسلم اکثریتی شہروں میں دوسرے نمبر پر ہونے کے باوجود آخر ملک اور صوبوں کے حکمراں اسے کب تک دودھ دینے والی گائے یا سونے کے انڈے دینے والی مرغی سمجھتے رہیں گے اور ضرورت پڑنے پر اسے حلال کرکے کھانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ یہ پورے ملک کے لیے 75فی صد ریونیو دینے والا شہر ہے لیکن نہ تو یہاں پینے کا صاف پانی لوگوں کو ضرورت کے مطابق دستیاب ہے اور نہ ہی نکاسی آب کا نظام یہاں موجود ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب تمام ہی صوبوں کے لوگوں کا بوجھ کراچی پر سارا سال رہتا ہے تو متعلقہ صوبائی حکومتیں اپنے لوگوں کی مد میں کراچی کو زرتلافی کیوں نہیں دیتیں؟
کراچی 20لاکھ بنگالی، دس لاکھ افغانیوں کے ساتھ چار لاکھ روہنگیا مسلمانوں کی مہمان نوازی بھی کررہا ہے پھر ظلم زیادتی یہ بھی کہ اس کی کل آبادی ایک کروڑ 49لاکھ ظاہر کردی گئی۔ اس طرح کراچی کو نیشنل فنانس کمیشن کے تحت مزید کم رقم فراہم کی جائے گی۔ آج دنیا حیران ہے کہ کراچی کی آبادی کیسے کم ہوگئی مگر حکمراں خاموش ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کو بھی چاہیے کہ کراچی کو براہ راست فنڈز دلانے کے لیے مختلف ممالک پر دباؤ ڈالے جب کہ عدالت عظمیٰ اور دیگر اہم اداروں کو بھی چاہیے کہ کراچی کے استحکام کے لیے اس کے حقوق ترجیحی بنیادوں پر دلائے۔
سوال یہ بھی ہے کہ 20 کروڑ 77 لاکھ آبادی والے ملک کے سب سے بڑے شہر کی آبادی اگر صرف ایک کروڑ 49لاکھ ہے تو دیگر شہروں کی کیوں کر زیادہ ہوگئی ہے؟ یقیناًانسان شماری میں غلطی نہیں غلطیاں ہوئیں ہیں۔