ایک بھارتی مسلمان پولیس افسر کے انکشافات

704

zc_MFبھارت میں مسلمانوں پر کیا گزر رہی ہے اس کا حقیقی اندازہ ہم پاکستان میں بیٹھ کر نہیں لگا سکتے۔ بھارتی میڈیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم اور ناانصافیوں کی تصویر پیش کرنے کے بجائے انہیں ہمیشہ دہشت گردوں کے روپ میں ظاہر کرتا ہے اور بیرونی دُنیا کو یہ تاثر دیتا ہے کہ مسلمان بھارت میں رہتے ہوئے اس ملک کے وفادار نہیں ہیں۔ وہ ہندو اکثریت کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور بھارت کو عدم استحکام سے دوچار کررہے ہیں۔ یہ بھارتی مسلمانوں کی نہایت تاریک اور منفی تصویر ہے جو میڈیا میں پیش کی جاتی ہے۔ پورا میڈیا انتہا پسند ہندو تنظیموں کے نرغے میں ہے اور ان تنظیموں کو بھارتی سرکار کی سرپرستی حاصل ہے۔ ایسے میں ایک بھارتی مسلمان پولیس افسر ایس ایم مشرف نے جو مہاراشٹر میں انسپکٹر جنرل پولیس کے اعلیٰ ترین منصب سے رضا کارانہ طور پر ریٹائر ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی ریشہ دوانیوں کی داستان لکھ کر تہلکا مچا دیا ہے۔



ان کی کتاب کا عنوان ہے ’’کرکرے کے قاتل کون‘‘ یہ نام در حقیقت اپنے ہندو قارئین کو متوجہ کرنے کے لیے رکھا گیا ہے۔ ہیمنت کرکرے مہاراشٹر پولیس کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کے سربراہ تھے لیکن ہندو ہونے کے باوجود جب انہوں نے ایک پیشہ ور پولیس افسر کی حیثیت سے نہایت غیر جانبداری کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات کی چھان بین کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ان وارداتوں کے پیچھے خود بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے تو انہیں پُراسرار انداز میں قتل کردیا گیا۔ ایس ایم مشرف نے اپنی کتاب میں اس راز سے پردہ اُٹھاتے ہوئے اور بہت سی وارداتوں کا ذکر کیا ہے جن میں مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگا کر ان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا اور انہیں قید و بند اور شدید ظلم و ایذا رسانی کے علاوہ معاشی استیصال کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کتاب کا پہلا انگریزی ایڈیشن 2009ء میں شائع ہوا تھا، پھر اگلے سال اس کا اردو ایڈیشن منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد سے اب تک اس کے کئی اردو ایڈیشن مزید اضافوں کے ساتھ شائع ہوچکے ہیں جب کہ اس کتاب کے ہندی، مراٹھی، گجراتی، ملیالم اور تامل تراجم بھی دستیاب ہیں۔ یہ کتاب ویب سائٹ پر بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔



مصنف نے مسلمانوں کے خلاف بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی ریشہ دوانیوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ بھارت میں جن مسلمان دہشت گرد گروپوں کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے وہ خفیہ ایجنسیوں کے خود ساختہ ہیں اور برسرزمین ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس حوالے سے مصنف نے ’’انڈین مجاہدین‘‘ نامی دہشت گرد گروپ کا بطورِ خاص ذِکر کیا ہے جس کا ہوّا بھارتی خفیہ ایجنسی آئی بی نے کھڑا کر رکھا ہے۔ حالاں کہ مصنف کے مطابق اس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ دہشت گردی کی وارداتیں آئی بی انتہا پسند ہندو تنظیموں راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور اس قسم کی دیگر انتہا پسند دہشت گرد ہندو تنظیموں کے ذریعے کرواتی ہے اور بعد میں ان کا الزام مسلمانوں پر لگا دیا جاتا ہے۔ اس کی واضح مثال سمجھوتا ایکسپریس کے بم دھماکے ہیں جو 19 فروری 2007ء کو پانی پت کے قریب ٹرین میں ہوئے ان دھماکوں میں پاکستانی مسلمان مسافر مارے گئے اور الزام بھی مسلمانوں خاص طور پر پاکستان پر لگادیا گیا۔ بھارتی خفیہ ایجنسی آئی بی نے اسے پاکستانی آئی ایس آئی کی کارستانی قرار دیا لیکن جب تفتیش انسداد دہشت گردی اسکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے کے سپرد کی گئی تو انہوں نے اصل مجرموں کی نشاندہی کردی اور اپنی رپورٹ میں بتادیا کہ ان دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ وشوا ہندو پریشد کا سربراہ پروین توگڑیا ہے اور اس تنظیم کے کارکنوں نے یہ واردات کی ہے۔



رسوائے زمانہ ممبئی حملہ 26 نومبر 2008ء کو ہوا جس میں متعدد افراد مارے گئے اور ممبئی کے مشہور تاج محل ہوٹل کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ بھارت نے فوراً اس کا الزام کالعدم جہادی تنظیم لشکر طیبہ پر لگادیا اور حافظ محمد سعید کو اس حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دے ڈالا۔ حملے کے بعد پولیس اور فوج کی جوابی کارروائی میں تمام حملہ آور مارے گئے جن کی تعداد چھ تھی۔ ان حملہ آوروں کو جو روانی سے مراٹھی بول رہے تھے، ساحل سمندر پر ایک کشتی سے اُترتے ہوئے علاقے کی ایک عورت انیتا راجندر اودیا نے دیکھا تھا اس نے بعد میں ان کی لاشیں بھی ہسپتال میں پہچان لیں لیکن خفیہ ایجنسی آئی بی اس پر مسلسل دباؤ ڈالتی رہی کہ وہ ایک اور شخص اجمل قصاب کو بھی ساتویں حملہ آور کی حیثیت سے شناخت کرے لیکن وہ اپنے بیان پر قائم رہی۔ یہاں تک کہ امریکی ایجنسی ایف بی آئی اسے امریکا لے گئی، اسے خطیر رقم کی بھی پیش کش کی گئی لیکن وہ دلیر عورت اپنے بیان پر قائم رہی اور اس نے اجمل قصاب کو پہچان کر نہ دیا۔



ممبئی حملے میں اجمل قصاب کا زندہ بچ جانے والے دہشت گرد کی حیثیت سے خوب پروپیگنڈا کیا گیا، پاکستان میں بھی ایک میڈیا گروپ نے اس معاملے کو خوب اُچھالا لیکن مصنف کا دعویٰ ہے کہ اجمل قصاب دو سال سے بھارتی ایجنسی کی تحویل میں تھا اور اسے نیپال سے پکڑ کر بھارت لایا گیا تھا۔ اس نے لشکر طیبہ کے ساتھ وابستگی کا جو بیان دیا وہ بھارتی ایجنسی کا تخلیق کردہ تھا۔ بعد میں اجمل قصاب پر مقدمہ چلا کر اسے پھانسی پر لٹکا دیا گیا لیکن بھارت کا جذبہ انتقام پھر بھی سرد نہ ہوا اور وہ ابھی تک ممبی حملے پر پاکستان کو مورد الزام ٹھیرا رہا ہے اور اس کے دباؤ پر ہی پاکستان میں حافظ سعید کو نظر بند کیا گیا ہے۔
کتاب کا بنیادی موضوع یہ ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے مسلمانوں کو ٹارگٹ کرنے کے لیے ’’مسلم دہشت گردی‘‘ کا ہوّا کھڑا کر رکھا ہے، دہشت گردی کی وارداتیں انتہا پسند ہندو تنظیمیں کرتی ہیں لیکن خفیہ ایجنسیاں ان کا ملبہ مسلمانوں پر ڈال کر ان کی پکڑ دھکڑ شروع کردیتی ہیں اور انہیں قید و بند سے دوچار کرنے کے علاوہ انہیں معاشی طور پر تباہ کردیا جاتا ہے۔



وہ پھر اپنے علاقے میں سر اُٹھا کر چلنے کے قابل نہیں رہتے۔ اس کے علاوہ فرقہ وارانہ فسادات کو بھی ہوا دی جاتی ہے۔ مصنف نے الیکشن جیتنے کے لیے اِن فسادات کو جادو کی چھڑی قرار دیا ہے۔ ان فسادات کے ذریعے الیکشن کے موقع پر بڑی آسانی سے ہندو اکثریت کی حمایت کی جاسکتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بھارت کے مسلمان اس وقت بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے رحم و کرم پر ہیں، جن کی لگام انتہا پسند ہندو تنظیموں کے ہاتھ میں ہے اور ان تنظیموں کو ایک مخصوص حکمران طبقہ استعمال کررہا ہے جس کے لیے مصنف نے ’’برہمن وادی عناصر‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ بہرکیف بھارتی مسلمانوں کی حالت زار بھی روہنگیا مسلمانوں سے کم المناک نہیں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر جو بیت رہی ہے اس سے اب پوری دنیا آگاہ ہوچکی ہے اور ان کے حق میں آوازیں بھی بلند ہورہی ہیں جب کہ بھارتی مسلمانوں کے حالات پر آہنی پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے حق میں آواز اُٹھانے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ نہرو لیاقت معاہدے کے تحت پاکستان کا یہ حق بنتا تھا کہ وہ بھارتی حکومت سے مسلمانوں کے تحفظ کا مطالبہ کرتا لیکن وہ ذرا اپنے حالات میں الجھا ہوا ہے ایسے میں ہم اپنے بھائیوں کے لیے خیر کی دُعا ہی کرسکتے ہیں۔