بنیادی حقوق کی پامالی بھی خلاف آئین ہے

289

Edarti LOHپاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار نے قوم کے دلوں کو گرمادینے والا بیان دیا ہے کہ خلاف آئین اقدام پر کسی بھی اتھارٹی یا ادارے کو روکیں گے۔ ان کا کہناہے کہ کوئی اتھارٹی یا ادارہ آئین کے خلاف اقدام کرے تو عدالت کو اسے روکنے یا نظر ثانی کا اختیار ہے۔ ریاست کے تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر ذمے داریاں ادا کرنی چاہییں۔ قانون کی حکمرانی کو ہر صورت میں برقرار رکھا جائے گا۔ نا انصافیاں قوموں کو افرا تفری اور انتشار کی طرف لے جاتی ہیں۔ انصاف کے لیے جمہوریت کا تحفظ ناگزیر ہے۔ انہوں نے اس حقیقت کا بھی اعادہ کیا کہ عدلیہ بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بناتی ہے ایک مرتبہ پھر ججوں کے فیصلوں کے بجائے جناب چیف جسٹس ہی بولتے سنائی دیتے ہیں۔ انہوں نے جو کچھ کہا وہ سو فی صد درست ہے۔



عدلیہ کو اسی قسم کے اختیارات حاصل ہیں۔ عدلیہ کی ذمے داریاں بھی یہی ہیں۔ انصاف کے لیے جمہوریت کا تحفظ بھی ضروری ہے اور اپنے منہ سے عدلیہ کی ان ذمے داریوں کا تذکرہ دہراکر چیف جسٹس صاحب پر ذمے داریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ عدلیہ پر بھی ذمے داریاں بڑھ گئی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں قوم کو ایسا صرف ایک دور میں محسوس ہوا تھا کہ اب عدالت عظمیٰ اس کے بنیادی حقوق کا بھی تحفظ کرے گی اور خلاف آئین اقدام پر کسی ادارے یا اتھارٹی کو روک سکے گی۔ یہ دور جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے بعد کا دور تھا۔ ان کے دور کے صرف ایک فیصلے سے اب تک پاکستانی قوم استفادہ کررہی ہے وہ سی این جی کی قیمتوں میں فراڈ 40 روپے اضافے کو واپس لینا۔ اس وقت تقریباً 35 روپے واپس لیے گئے تھے جس میں اب دھوکے، فریب کے ذریعے پھر اضافہ کردیاگیا ہے۔ اس کے علاوہ لاپتا افراد کے کیس کو اٹھایا گیا تھا، خفیہ اداروں کو پیشیاں بھگتنا پڑی تھیں۔ اس دباؤ میں کئی لاپتا افراد بازیاب بھی ہوگئے تھے۔



لیکن گزشتہ کئی برس سے ایجنسیاں بھی حد سے گزرچکی ہیں جو پاکستان میں اتھارٹی کہلاتی ہیں۔ چیف جسٹس نے خلاف آئین اقدام کو روکنے کی بات کی ہے لیکن خلاف آئین اقدام صرف مارشل لا نہیں ہوتا۔ آج کل ہزاروں شہری اپنے ہی ملک کی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتا ہیں۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزی ہے۔چیف جسٹس کہتے ہیں کہ عدلیہ انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بناتی ہے لیکن یہ کام تو نہیں ہورہا۔ اگرچہ انہوں نے بتایا کہ انسانی حقوق ہی کے ذریعے گزشتہ سال 29ہزار 657 شکایات کو نمٹایا گیا لیکن ایک سال میں زیر التوا مقدمات کی تعداد میں 6 ہزارکا اضافہ ہوگیا۔ کہنے اور سننے میں یہ باتیں اچھی لگتی ہیں کہ تمام ادارے اپنی حدود میں رہیں لیکن ان اداروں کو تو حدود میں رکھنے کا عمل بڑا سخت ہے اس کی بنیادی شرط تو یہ ہے کہ جو ادارہ سب کو حدود میں رکھے وہ خود بھی حدود و قیود کا پابند ہو۔ تمام خرابیوں اورر کمزوریوں کے باوجود پاکستانی قوم کو عدالت عظمیٰ سے بڑی امید ہے۔ یہ بات بھی محل نظر رہنی چاہیے کہ آئین کی خلاف ورزی میں بنیادی اہمیت بنیادی انسانی حقوق کی ہے۔ لوگوں کو پولیس تھانے اور ماتحت عدلیہ سے انصاف نہ ملے پولیس والے ہزاروں مقدمات میں خود ملوث ہوتے ہیں۔ماتحت عدلیہ کے بارے میں خود عدالت عظمیٰ واقف ہے کہ وہاں کیا ہوتا ہے بلکہ اعلیٰ عدالتوں میں بھی بے گناہ کے پھانسی چڑھنے کے بعد ان کے بریت کا فیصلہ بھی ہوا ہے۔ 11 ستمبر ہی کو سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے 5 سال ہوگئے، کسی کو سزا ہوئی نہ متاثرین کو امداد ملی۔



یہ بھی تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔پاناما کیس میں بھی ایک طرف وزیراعظم کو نا اہل تو قرار دے دیا گیا لیکن جس بنیاد پر قرار دیا گیا ہے آنے والے دنوں میں یہ مقدمہ الٹ سکتا ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے جس تناظر میں یہ بات کہی ہے کہ خلاف آئین اقدام کو روکنے کا اختیار ہے وہ جمہوریت کے خلاف کوئی قدم ہوسکتا ہے لیکن کراچی سے وزیرستان تک پاکستانی عوام بہت سے خلاف آئین اقدامات کو بھگت رہے ہیں ان پر اداروں کو روکا اور ٹوکا جانا بہت ضروری ہے۔ کراچی میں کے الیکٹرک نے عوام کو بری طرح لوٹا ہے۔ پاکستان اسٹیل اور پی آئی اے کو تباہ کرنا بھی عوام کے بنیادی حقوق پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہے۔ پورے ملک میں آلودہ پانی، آلودہ خوراک اور مضر صحت اشیائے خور ونوش کی فراہمی بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی میں شامل ہے۔ ’’اتھارٹی‘‘ کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ جب خلاف آئین اقدام کرتی ہے تو اس اقدام کے تحفظ کا انتظار بھی کرتی ہے پاکستان میں اسے کبھی نہیں روکا جاسکا۔ یہ کارنامہ ترک عوام اور اداروں کے کارکنوں نے کردکھایا۔ عدالت عظمیٰ اتھارٹی کو چھوڑے چھوٹے چھوٹے اداروں کی زیادتیوں سے عوام کو نجات دلائے اس کی اپنی اتھارٹی بھی مستحکم ہوجائے گی۔